اردو اکادمی دہلی کے زیراہتمام ’’نئے پرانے چراغ‘‘ کے تحت چوتھی ’’محفل شعر وسخن‘‘

نئی دہلی۔30 ستمبر

اردو اکادمی ،دہلی کے زیر اہتمام ’ نئے پرانے چراغ ‘ کے بینر تلے چوتھے روز کا مشاعرہ بزرگ شاعر جنا طالب کی رامپوری کی صدرات اور نوجوان شاعر سلمان سعید کی نظامت میں  کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا ۔ مشاعر ہ کی شمع صدرمحترم اور اسٹیج پر موجود دیگر شعرا کے ہاتھوں روشن ہوئی ۔ناظم مشاعرہ  نے ابتدائی کلمات میں اکادمی کے ضابطے سے شعرا کو مطلع کیا کہ اگر کوئی شاعر تحت میں غزل پیش کریں تو صرف پانچ اشعار اور ترنم سے صرف تین اشعار پیش کریں۔روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ناظم مشاعرہ نے پہلے نوجوان شعرا کو دعوت سخن دی بعد میں بزرگ شعرا نے کلام پیش کیا۔ اس محفل میں تقریباً 65 شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیااور مشاعرہ تقریباً ساڑھے نو بجے اختتام کو پہنچا۔ شعرا کے منتخب کلام پیش ہیں:
دل وہ پنچھی ہے پر اگر ہوتے
پسلیاں توڑ کر نکل جاتا
طالب رامپوری
اس شہر میں اب کون ہے جو ہم کو نہ جائے
مشہور ہمیں کر گئی رسوائی ہماری
دوست محمد نبی خاں
لبوں سے پھول کھلانے کا سلسلہ رکھنا
کسی نے کانپتے ہونٹوں سے التجا کی ہے
شرف نانپاروی
لکھتے لکھتے تھک چکا ہوں اپنی روداد ِالم
زندگی تونے بنا ڈالا ہے افسانہ مجھے
ماسٹر نثار احمد
مجھ کو بزدل ناتواں کہنے سے پہلے
زندگی آنکھیں مری آنکھوں میں ڈالے
سریندر شجر
تمہارے بعد بڑا فرق آگیا ہم میں
تمہارے بعد کسی سے خفا نہیںہوئے ہم
شکیل جمالی
اسے دزدیدہ نظروں سے بہت سے تکنے والے ہیں
کسی کو دے نہ دے لیکن ابھی سکے اچھا لے ہیں
حبیب سیفی
شب غم گزر ہی جاتی نہ یوں ہر گھڑی ستاتی
جو نہ یاد تیری آتی نہ غم گسار ہوتا
محمد انجم جعفری
بخیۂ درد سے خوش رنگ ہے پوشاکِ حیات
ورنہ خلعت کا ہراک تارنکل سکتا ہے
اسرار رازی
ہمارے کھیل کی گڑیا تمہی ہو
تمہارے کھیل کی گڈا میں ہوں
سلمان سعید
خونِ دل خونِ جگر خونِ تمنا کرنا
ہائے آتا ہے مری جاں تمہیں کیا کیا کرنا
صدف برنی
دھندلا دھندلا سا نظر آتا ہے اے روئے زندگی
گھٹ رہی ہے روزبینائی کسے آواز دوں
جناب مجاز امروہوی
فرستادہ ہوگئے مسند نشیں
شاہزادہ خوش ہیں درباری ہیں وہ
ایم۔ٹی۔ ملک
شرپسندوں کی ذرا آتش بیانی دیکھیے
کون اُن کو کررہا ہے ترجمانی دیکھیے
کیلاش سمیرؔ
ایسا بن تجھ میں محبت کی مہک آنے لگے
ساری دنیا کو اکیلا تو ہی تو بھانے لگے
محمد سلیم سیانوی
ہمارے عشق کی معراج ہم سے مت پوچھو
کٹی زباں سے قصیدے سنا کے آئے ہیں
اختر علی
پیدا ہوتا ہے جب انسان میں جینے کا شعور
وقت کمبخت کہاں عمر رواں چھوڑتی ہے
ساز دہلوی
یہ رحمتیں ہیں ترے رب کی دولت و شہرت
تو جس جہان کو اپنا جہاں سمجھتا ہے
محمد ارشد
قہقہوں میں نہ سہی، غم میںچھپالو مجھ کو
زندگی کا کوئی عنوان بنا لو مجھ کو
محمد شاہدؔ
سکوں ملنے میں دشواری بہت ہے
ہماری درد سے یاری بہت ہے
ڈاکٹر افروز طالب
بنیاد کی کمزوری ڈھاتی ہے عمارت کو
ہم فہم و فراست پر معمار کا مستقبل
عاشق عباس منتظر
نسب برابر کا سمجھ کر بات کرنی چاہیے
پیر میں بیٹے کے جب آجائے جوتا باپ کا
حشمت بھاردواج
یہ فیضِ عشق ہے یا فیضِ تمکنت دیکھو
خفا خفا سے ہیں دونوں مگر اُداس نہیں
علی ساجد
میں عشق زادی نہیں ہوں میں میر زادی ہوں
تیری سمجھ سے پرے ہیں تخیلات میرے
سپنا احساس
آج خود سے بات کی میں نے تو اندازہ ہوا
اک دو کمیوں کے علاوہ آدمی اچھا ہوں میں
شاکر دہلوی
تیرے آنکھوں سے بھی آئے میرے زخموں کا لہو
تو جو روئے تو میرے دل سے بھی ہائے نکلے
ثمر نورپوری
تجھے گلاب تو کاغذ کے مل گئے ہوں گے
نہ پوچھ یہ کہ انھیں کیسے ہم نے لال کیا
دیوندر سنگھ
جھوٹ کو سچ کہہ نہ پائے ہم ترے اصرار پر
پھر ہوا کچھ یوں کہ بجلی گر گئی گفتار پر
شفاؔ کجگانوی
نہ میں آپ کو پاس بلا سکی نہ دل کی بات بتا سکی
وہ ہنسی ہنسی میں ہی چلا گیا میں ہاتھ تک نہ پکڑ سکی
اسماء
دل کو ملتی ہے اب تو راحت کم
ان کی جب ہوئی عنایت کم
صاحب خان ساگر
لامکانی میں بہت زور مکاں دیکھتے ہیں
کوئی تعمیر خلا ہے کہ جہاں دیکھتے ہیں
ممتاز اقبال
مشکل بہت ہے کام مگر تو تلاش کر
حسن کلام کے لیے اردو تلاش کر
تحسین ثمرؔ
لاتی افلاک سے چن چن کے بنا دیتی لباس
دسترس میں جو مرے چاند ستارے ہوتے
صالحہ حیات
دیکھنے والے قصے پر صرف نظر ہوتی رہی
جانِ شوریدہ لیے میں دربدر ہوتی رہی
خوشبو پروین
اگر اُتار کے رکھ دیں لباسِ خوداری
ہمیں ہماری ضرورت تباہ کر دے گی
محسنؔاورنگ آبادی
یہ اور بات ہے دِل ریت کا سمندر ہے
اسی میں گمشدہ طوفاں کے ولولے بھی تو ہیں
فرحین اقبال
اک دیر بھی نہ چھوڑا پرکھوں نے
طاق کتنے میرے مکان میں تھے
عرفان احمد
نہیں ہے ظرف قطرہ کا بھی اس میں
مگر دریا کی چاہت کر رہا ہے
مظفر ضمیر
لوٹ کر نہ آیا وہ میرے خاک ہونے تک
دفن ہوگیا آخر انتظار آنکھوں میں
سرتاج امروہوی
فن عروض کی راہیں دکھا کے آئی ہوں
تمام عمر میں اردو پڑھا کے آئی ہوں
وسیم راشد
آسماں پر بنا تھا زمیں کے لیے
اور زمیں پر ہوں اب آسماں کے لیے
افضال دہلوی
کوئی پیکر جس کو یہ پیام میرا دے دے
ترا عشق ہے ازل سے مرے حق میں شامیانہ
منور حسن کمال
سچ تو یہ ہے کہ مجھے ساتھ ترا کافی ہے
ورنہ اب جرمِ محبت پہ سزا کافی ہے
تسلیم دانش
عنایت کی جرات نہ کر اب کے بس
ہمیں اپنا یہ حال منظور ہے
آکاش عرش
میرا حق مار کر کیوں پریشان ہے
میرے بھائی بتا ا ور کیا چاہئے
چاند فیضی سانکھنوی
نزول دیکھ لیا جب بھی آبشاروں کا
غرور ٹوٹ گیا خود ہی کوہساروں کا
اسلم خورشید
مشورہ ہے یہ میرا ترکِ تعلق میں ابھی
کوئی کھڑکی کوئی دروازہ کھلا رہنے دے
سیما اقبال ادا
چہرے پہ نور آنکھوں میں لالی بسائیے
تصویر کوئی دیکھنے والی بنائیے
سریتا جین