Your preferred website language

آپ کی پسندیدہ ویب سائٹ کی زبان

دہلی کے بزرگ اورجواں عمر قلمکاروں کا پانچ روزہ ادبی اجتما ع ’نئے پرانے چراغ‘ اختتام پذیر

اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ سر قہ معتبر ہوتا جارہا ہے : پروفیسر جینا بڑے

اردواکادمی دہلی کا معروف و مقبول ترین پروگرام ’نئے پرانے چراغ‘ جو پانچ دنوں سے چل رہا تھا جس میں روزانہ تحقیقی وتنقیدی اجلاس میں دس ریسرچ اسکالرز ، تخلیقی اجلاس میں سترہ تخلیق کار اور مشاعرہ میں ستر سے زائد شعرا شامل ہوئے۔ اس پورے اجلاس میں پانچ سوسے زائد ادبا نے اپنی تخلیقات  اور تنقیدی تحریریں پیش کیں۔
پانچویں دن کا پہلا پروگرام تحقیقی و تنقیدی اجلا س سے شرو ع ہوا جس کی صدرات پروفیسر معین الدین جینابڑے، پروفیسر شیخ عقیل احمداور ڈاکٹر آصف زہری نے کی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر یوسف رضانے انجام دی ۔ اس تنقیدی و تحقیقی اجلاس میں کل نو مقالات پیش کیے گئے۔محترمہ تائبہ فرحین نے ’’ محمد انصاراللہ نظر بحیثیت محقق ‘‘ ، محمد ارمان نے ’’ اوپندر ناتھ اشک کے افسانوں کا تعارف ‘‘ ، راحت علی صدیقی نے ’’ احسان دانش کی نثری کائنات ‘‘ ، نثار احمد نے ’’جدید افسانوں کے اسالیب،مروجہ رجحانات اور نیر مسعودکی انفرادیت ‘‘ ، جعفرامام نے ’’ آزادی سے قبل ہندوستان میں ادبی صحافت:ایک مختصر جائزہ ‘‘، سیدمحمدزیدنے ’’شائستہ فاخری کے افسانوں میں تانیثی مسائل کی عکاسی‘‘ ، محمد نویدنے ’’ شمس الرحمٰن فاروقی:بحیثیت غالب شناس‘‘، محترمہ کماری ستیم نے ’’مشرف عالم ذوقی کے ناول ’بیان‘میں عدمِ تحفظ کا احساس‘‘ اور محترمہ شیماخانم نے ’’ اردوافسانوں میںپنجاب کی عکاسی ‘‘ پر مقالات پیش کیے۔ مقالہ خوانی کے بعد سوالات بھی ہوئے۔
ڈاکٹر آصف زہری نے بطور صدر تمام مقالہ نگاروں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہیں کئی مفید مشوروں سے نواز تے ہو ئے کہا کہ تحریر اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتی کہ آپ لفظوں کو ضائع کریں۔ لکھنا کیا ہے یہ تو آپ کو معلوم ہوتا ہی ہے لیکن کیا نہیں لکھنا ہے اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔کسی بھی ریسرچ پیپر میں سوالات کو مرکوز میں رکھ کر ہی مقالہ تحریر کریں ہمیشہ ایک یا دوسوال پر ہی خود کو ثابت کرنے کی کوشش کریں وہی آپ کی تخصیص ہوگی ۔ اقتباسات کو اولیت نہ دیں ہمیشہ اس کو دلائل ثابت کرنے یا پھر ردکرنے میں لائیں نہ کے مقالہ کی جگہ کو پر کرنے کے لیے ۔ مقالوں میں کبھی بھی تشریحاتی طریقہ کار نہ اپنائیں۔پروفیسر شیخ عقیل احمدنے کہا کہ دس منٹ کے مقالے میں یہ کبھی نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ تنقیدی مقالہ پیش کرسکیں البتہ وہ تجزیاتی ہوسکتاہے۔کوئی بھی کتاب یا تحقیقی مقالہ اپنے اندر خلا ضرور چھوڑتا ہے، آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس خلا کی تشخیص کریں اور اس خلا کو پر کرنے کی کریں۔ پروفیسر معین الدین جینابڑے نے تمام مقالوں پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق تنقید سے بے نیاز اور تنقید تحقیق سے بے نیاز نہیں ہوسکتی ہے۔کسی فن پارہ کی ادبی اہمیت لسانی سماجی اور کوئی اور حیثیت ناقدطے کرتاہے۔ہمارے یہاں بنیادی اصطلاحات کی تفہیم نہیں پائی جاتی ہے۔ہم اصطلاح کے لفظی و معنوی مفہوم سے کام چلاتے ہیں یا پھرکسی دوسرے وتیسرے چیزسے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔تانیثی طرزتفہیم پورے معاشرے کو عورت کی ذات کے حوالے سے دیکھتا ہے اور اس میں مردبھی شامل ہے۔تحقیق لوہے کے چنے چبانے کا نام ہے اور یہ کام روا روی میں نہیں ہوسکتا ۔ کوئی بھی کام ہو اگر اس میں خلوص و دیانت داری نہ ہو تو پھر وہ غیر معیاری کام ہوتا ہے ۔دیانت داری ہوگی تو تحقیق و تنقید ہوگی ورنہ کھلواڑ ہوگا اس کے لیے نئی نسل اتنی ذمہ دار نہیں ہے جتنی ہماری نسل ہے۔ سب کچھ اگر سطحی ہے تو محقق و ناقد و بھی سطحی ہوگا ۔ سر قہ معتبر ہوتا جارہا ہے اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے ۔
ظہرانے کے بعد تخلیقی اجلاس منعقد ہوا ۔اس اجلاس کی صدارت جناب اسد رضا ،جناب سہیل انجم اور ڈاکٹر شمیم احمد نے کی جب کہ نظامت ڈاکٹر شاہد اقبال نے کی ۔اس اجلاس میں کل دس تخلیقات پیش کی گئیں ۔ثروت عثمانی نے ’ خاکہ ‘ ،حرا قمر نے افسانہ ’ سراب ‘ ، محمد شاہنواز ہاشمی نے افسانہ ’ زندگی در زندگی ، عمرانہ نے ’ لکیریں ‘ عمران عاکف خان نے ’ ایک خط اپنے ہی نام ‘ ، ٹی این بھارتی نے افسانہ ’ نو ن غنہ ‘ ترنم پروین نے افسانہ ’ خلاف ورزی ‘ امجد حسین نے انشائیہ ’ دلی ‘ ، طہ نسیم نے انشانہ ’ پٹھان مرغے کا ‘ ، مصطفی علی نے افسانہ ’قبائلی ‘ اور شاہد حبیب نے افسانہ آکسیجن پیش کیا ۔
تخلیقات کے بعد ڈاکٹر شمیم احمد نے سبھی تخلیقات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا یقینا تخلیقات لکھی جارہی ہیں لیکن ایک قسم کی پختگی کا فقدان مجھے نظر آیا۔سہیل انجم نے اپنی گفتگو میں سبھی افسانو کی فنی باریکیوں پر گفتگو کی ۔ جناب اسد رضا نے اپنی گفتگو میں کہا کہ مجھے کچھ کہانیوں میں نیا پن دیکھنے کو ملا جس میں وقت کی عکاسی نظر آئی اس کے لیے سبھی کو مبارکباد ۔
اجلاس کے اہم شرکاء میںپروفیسر خالد اشرف ،ڈاکٹر زاہد ندیم ، ڈاکٹر پرویز  اعظمی،حبیب سیفی، ایم آر قاسمی، ڈاکٹر ندیم احمد ، ڈاکٹر نظام الدین ودیگر معزز افراد و ریسرچ اسکالرز موجود تھے ۔
تخلیقی اجلاس کے بعد شام ساڑھے پانچ بجے اس پروگرام کی آخری محفل شعرو سخن کا انعقاد ہوا جس کی صدرات مشہور شاعر جناب منیرہمدم اور نظامت ڈاکٹر حبیب الرحمن نے کی۔ مشاعرے میں تقریباً 70  شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔