نئی دہلی۔26 ستمبر
اردو اکادمی دہلی کے اہم پروگراموں میں سے نئے پرانے چراغ کی سب سے زیادہ اہمیت تسلیم کی جاتی ہے ، کیونکہ اس ادبی اجتماع میں پرانے چراغوں سے نئے چراغ اپنے لیے بہت کچھ حاصل کرتے ہیں ۔ یہ صرف دہلی کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا واحد ادبی اجتماع ہے جو لگاتار پانچ روز تک جاری رہتا ہے اور اس میں اردو کی جملہ اصناف ادب پر گفتگو اور تخلیقات پیش کی جاتی ہیں ۔ وقت کے ساتھ ادبا اور قلمکاروں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے اس مر تبہ کے اس ادبی اجتماع میں پانچ سو سے زائد افراد اپنی تخلیقات ، تنقیدی و تحقیقی تحریریں پیش کریںگے ۔
اردو اکادمی ،دہلی کی بہت ساری اہم خصوصیات ہوسکتی ہیں لیکن سب اہم خصوصیت جو ایک عام فرد کو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ دہلی کے ہر اردو خواں طبقہ سے یہ راست تعلق رکھتی ہے ، خواہ وہ بچہ ہو اور ابتدائی درجات میں پڑھتا ہو، ثانوی تعلیم حاصل کررہا ہو، کالج کا طالب علم ہو، یونیورسٹی کا ریسرچ اسکالر یا کسی بھی صنف کا تخلیق کار ہو ہر ایک کو اکادمی اسٹیج فراہم کرتی ہے جس سے اپنی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں نکھار سکے اور آگے بڑھنے کا موقع ملے اس سلسلے کا اہم پروگرام ’ نئے پرانے چراغ ‘ ہے جو اردو اکادمی دہلی کے قمر رئیس سلور جبلی آڈیٹوریم میں آج منعقد ہوا جو لگاتا ر 30 ستمبر تک جاری رہے گا ۔
پہلا اور افتتاحی اجلاس پروفیسرمحمد شاہد حسین کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں بطور مہمان خصوصی پروفیسر صادق نے شرکت کی۔
افتتاحی اجلاس کے صدارتی خطبے میں پروفیسرمحمد شاہدحسین نے تحقیقی امور پر بہت تفصیلی گفتگو کی جس میں انہوںنے لوازماتِ تحقیق و تنقید اور مروجہ اصولوں کو بھر پور طریقے سے برتنے کو لازمی قرار دیا ، تحقیق کے متعلق قرآن کریم کا حوالہ پیش کیا اور بتایا کہ بلا تحقیق کوئی بھی بات آگے نہیں بڑھانی چاہیے ۔
بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر صادق نے اپنی گفتگو میں کہا کہ جب اکادمی کاسکریٹری مجھے بنایا گیا تو یہاں آنے کے بعد سب سے پہلے میں نے یہاں کے کاموں کا جائزہ لیا تو پایا کہ اس کا بجٹ میرے آنے سے پہلے واپس لوٹایا جارہا تھا میں نے اس کا بھر پور استعمال کیا اور ایک ایسے پروگرام کا خاکہ پیش کیا جس میں اہل دہلی کو مکمل طور پر شرکت کا موقع ملے، گفت و شنید کے بعد اس کا نام ’ نئے پرانے چراغ ‘ تجویز کیا گیا۔ یہ پروگرام منظور ہوا اور اب یہ اردو اکادمی، دہلی کی اہم شناخت ہے۔اس زمانے میں یہ ایک دن کے پروگرام سے شروع ہوا تھا آج اس کی مقبولیت یہ ہے کہ پانچ دنوں تک لگاتا ر جاری رہتا ہے ، مزید انھوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی ادبی پروگرام اس نوعیت کا نظرنہیں آتا ہے ۔
افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر شفیع ایوب نے بخوبی انجام دیا اور ’’نئے پرانے چراغ‘‘ کے تیس سالہ سفر پر تفصیلی گفتگو کی۔
اس کے بعد چائے کا وقفہ ہوا پھر محفل شعر و سخن منعقد ہوا جس کی صدرات مشہور دانشور اور شاعر پروفیسر اخلاق آہن اور نظامت جناب پیمبر نقوی نے کی ۔ اس مشاعرے میں تقریباً72 شعرا نے کلام اپنا کلام پیش کیا ۔
شرکامیں ڈاکٹر ریاض عمر، ڈاکٹر جی۔آر۔ کنول، احمد علوی، حبیب سیفی، منیرہمدم، ڈاکٹر شبانہ نذیر، ارشد ندیم،ناصرعزیز، ایم آر قاسمی اور کافی تعداد میں ریسرچ اسکالرز موجود تھے۔