Your preferred website language

آپ کی پسندیدہ ویب سائٹ کی زبان

اردو اکادمی دہلی کے زیراہتمام ’’نئے پرانے چراغ‘‘ کے تحت ’’محفل شعر وسخن‘‘ کا انعقاد

نئی دہلی۔28 ستمبر
دہلی کے بزرگ اور جواں عمر قلمکاروں کاپانچ روزہ ادبی اجتماع ’’نئے پرائے چراغ‘‘ کے دوسرے دن کا مشاعرہ قمر رئیس سلور جبلی آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ مشاعرہ کی شمع صدر مشاعرہ جناب وقار مانوی اور دیگر بزر گ شعرا کے ہاتھوں روشن ہوئی۔ ناظم مشاعرہ جناب فرید احمد فرید نے بحسن و خوبی مشاعرے کو آگے بڑھایا ۔

تخلیقی اجلاس ابھی جاری ہی تھا کہ شعرا کی کثیر تعداد ہال میں آچکی تھی ،نئے پرانے چراغ سبھی آپس میں ادبی و شعری گفتگو کررہے تھے کہ چائے کا دور چلا اور مشاعرہ بروقت شروع ہوا جو دیر رات تک جاری رہا۔ دعوت سخن دینے سے پہلیشعرا کو ہدایت دی گئی تھی کہ اگر کوئی شاعر تحت اللفظ پڑھتا ہے تو وہ اپنی غزل کے صرف پانچ اشعار پیش کریںگے اور اگر ترنم میں پڑھ رہے ہیں تو صرف تین ہی شعر پیش کر سکتے ہیں ۔ اس ہدایت کے ساتھ مشاعر ہ کا باضابطہ آغاز ہوا اور مشاعرہ کا سفر نوجوان شعرا سے بزرگ شعرا کی جانب کامیابی کے ساتھ گامزن ہوا۔ تقریباً 71 شاعروں نے اپنے اپنے کلام سے سامعین و حاضرین کو محظوظ کیا ۔ چند شعرا کے اشعار پیش خدمت ہیں :
ماضی کے ہم امین ہیں، ہوگا ہمارے ساتھ
ماضی کی ایک ایک نشانی کا خاتمہ
وقار مانوی
اے پرندے تجھے اڑانا تھا
صرف تیری اڑان میں کہا تھا
سہیل احمد فاروقی
گئی رتوں کی بہاروں کی بات کیا کرنی
بھنور میں رہ کر کناروں کی بات کیا کرنی
شبانہ نذیر
ذہن الجھا رہا سوال کے بعد
تو کہاں جائے گا زوال کے بعد
عفت زریں
تاریخ ہوں موجودہ لہو رنگ صدی کی
میں گزرے ہوئے وقت کا فن پارہ نہیں ہوں
ڈاکٹر واحد نظر
بجا آپ کا بند کمروں میں رہنا
کہیں سے مگر روشنی آنے دیجیے
تحسین منور
میرو غالب مومن آتش انشا جی یہ کہہ کے گئے
اردو والو! دھیان سے رکھنا دیوانوں کے آتشدان
شاہد انور
خوش گلو منظر پہ ہیں فن کار پس منظر میں ہے
عکس سب کے رو برو، کردار پس منظر میں ہے
منصور ذکی
سوگیا حسن کی آغوش میں سر رکھ کے کوئی
اور کوئی خاک اڑاتا پھرا صحرا صحرا
امیر امروہوی
کرکے مزدوری میں دن رات کمالوں گا تجھے
کتنا نادان تھا سوچا تھا کہ پالوں گا
راجیو ریاض پرتاپگڑھی
گھر سے نکلا تھا ہر خوشی لے کر
لوٹا آنکھوں میں بس نمی لے کر
تاج محمد
یہ تو قدرت کا قانون ہے
جو بھی دنیا میں آیا وہ گیا
قلم بجنوری
سیاہ رات یہ خوشبو یہ جگنوؤں کا ہجوم
تمہارا عکس غزل میں اتار بیٹھا ہوں
ڈاکٹر سید نظم اقبال
تجھ کو آہٹ سے جان لیتا ہوں
دل سے لیتا ہوں کام آنکھوں کا
عارف بریلوی
وقت رخصت کرلے اظہار محبت
تیری آنکھوں میں پانی چاہتا ہوں
نسیم بادشاہ
اس کی زلفوں سے رہا ہونے کے بعد
ہم بہت بھٹکے ہیں رخساروں کے بیچ
سالم سلیم
آ یا نظر نہ مصرع اولی میں وہ کبھی
جو درد میرا مصرع ثانی کے ساتھ ہے
صابرین کوثر
شعر گوئی کا شغف مجھے،تجھے سننے کا شوق
لیکن اردو آشنا میں بھی نہیں تم بھی نہیں
نعیم اختر
غیروں کی بات چھوڑیے اپنے بھی کچھ جناب
ملتے ہیں آستین میں خنجر لیے ہوئے
سجاد بجنوری
ہر تیرے واسطے یہ ڈوب کے مرنے کا مقام
تیرے ہوتے ہوئے ماں نے جھونپڑی دیکھی
فرید احمد فرید
تمہارے لوٹنے سے یہ ہے خسارہ میرا
کلام بے سبب رہ جائے گا سادہ میرا
سید مسعود احمد
بس میں نہ آسکے گا کسی بھی طبیب کے
ماروں گا ایسا گھونسا کسی دن رقیب کے
اقبال فردوسی
آئے، دیکھے کوئی مقتل میں ہماری سج دھج
ہر رگ جاں سے صدا آتی ہے جاناں جاناں
راشد حامدی
کبھی جو غرق کردیتی ہے کشتی کو کنارے پر
وہی طاقت کبھی کشتی بھنور میں چلاتی ہے
اعجاز انصاری
چھٹی تو صاحب لوگ کی ہوتی ہے
ہم جیسوں کو روز کمانا پڑتا ہے
حامد علی اختر
ہوشیار ہوشیار مت دینا
شاعروں کو ادھار مت دینا
مسرور احمد
لوٹ کر نہ جا پائے گا دل سے
جس آنا ہے سوچ کر آئے
اقبال مسعودی ہنر
نئے چراغوں کو ملتی ہے روشنی ان سے
خدا کرے رہیں روشن یونہی پرانے چراغ
معصوم امروہوی
اس سے ملنے کا یہ فائدہ ہوگیا
زخم دل پر ایک پھریرا ہوگیا
جاوید نیازی
دل سی کوئی شئے لکھی ماہیت کے خانے میں
پیچ و تاب روز و شب کیفیت کے دل میں
راشد شمسی
میں نے دل سے لگا لیا ان کو
جن کو منہ تک نہیں لگانا تھا
فرحت اللہ فرحت
کئی دنوں سے عجیب کیفیت ہوئی ہے کہ ہم
تمھارے غم میں پرائے ہوئے سے لگتے ہیں
صبا عزیز
ہر طرف ظلم ہے وحشت ہے ریاکاری ہے
شر پسندوں کی قیادت میں ستم جاری ہے
علی اصغر ادریسی
بھلا کر دلوں سے یہ نفرت کی باتیں
چلو چھیڑیں آج محبت کی باتیں
نعیم ہندوستانی