دہلی کے بزرگ اورجواں عمر قلمکاروں کا پانچ روزہ ادبی اجتما ع ’نئے پرانے چراغ‘ کا تیسرا دن

مقالہ طالب عالم کا ہو یا استاد کا سبھی کے لیے اصول وضوابط یکساں ہیں: پروفیسر احمد محفوظ

نئی دہلی۔28 ستمبر
تیسرے دن کا پہلا پروگرام تحقیقی و تنقیدی اجلا س سے شرو ع ہوا جس کی صدرات پروفیسر شہزاد انجم ، پروفیسر احمد محفوظ اور پر وفیسر مظہر احمد نے کی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ثاقب عمران نے انجام دیے ۔ اس تنقیدی اجلاس میں کل نو مقالات پیش کیے گئے۔محمد اخلاق نے ’’ ہندوستانی فلموں کے فروغ میں نغمہ نگاری کا کردار ‘‘ ، محمد بلال خاں نے ’’ سعادت حسن منٹو اور صادق ہدایت کے افسانے ’ ٹیٹوال کا کتا ‘اور ’سگ ویلگر‘ کا تقابلی مطالعہ ‘‘ ، شزا سہیل نے ’’ ابن کنول کا افسانہ ’ ہستک چھیپ‘ ایک تجزیاتی مطالعہ ‘‘ ، وسیمہ اختر نے ’’ ترنم ریاض کی کردار نگاری ناول ’موتی‘ کے حوالے سے ‘‘ ، امتیاز احمد نے ’’ اردو زبان و ادب کے فروغ میں اسکولی تعلیم کا کردار ‘‘، توصیف حسین نے ’’ اردو زبان کا لسانیاتی سفر: ایک مطالعہ‘‘ ، عمران عظیم نے ’’ عتیق اللہ کی خاکہ نگاری کے اطراف و جوانب ‘‘ ، ضوفشاں نے ’’ جدید ڈرامے کا ایک اہم نام: شاہد انور ‘‘،محترمہ شہناز نے ’’ جمیلہ ہاشمی کے ناول ’داغِ فراق ‘کا تنقیدی جائزہ ‘‘ پر مقالات پیش کیے۔
مقالہ خوانی کے بعد بطور صدر پروفیسر مظہر احمد نے تمام مقالات پر اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے مقالہ نگاروں کو مفید مشوروں سے نوازا اور تحقیقی و لسانی گرفت بھی کی ۔ پروفیسر احمد محفوظ نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ریسرچ اسکالر کا مقالہ ہو یا کسی استادکا سبھی کے لیے اصول وضوابط یکساں ہوتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو عمومی رویہ سے بچنا چاہیے ۔مقالہ نگار اپنی رائے کو نمایاں کرنے کی کوشش کریں اور مقالے میں اپنی موجودگی کو بھر پور انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں ۔ لفظیات کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ کون سا لفظ کہاں استعمال کرنا چاہیے اس پر بہت ہی باریک نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ پروفیسر شہزاد انجم نے تمام مقالوں پر بہت ہی تفصیلی گفتگو کی اور کہا کہ کوئی کسی بھی چیز میں مکمل نہیں ہوتا ، غلطیاں ہر ایک سے ہوتی ہیںاور یہ ہمارے لیے سیکھنے کا اسٹیج ہے تو یہاں ہمیں غلطیوں سے گھبرا نا نہیں چاہیے بلکہ میں آپ تمام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ سبھی نے پر اعتماد انداز میں بہترین مقالات پیش کیے ۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ریسر چ میں ہمیں محض معلوماتی مضامین سے بچنے کی ضرورت ہے ، تحقیقی، تجزیاتی یا پھر تنقید ی رخ اپنانے کی کوشش کریں ۔ انھوں نے کہا کہ میں بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ میر ے زمانے میں اتنے اچھے مقالے نہیں پیش کیے جاتے تھے ۔
ظہرانے کے بعد تخلیقی اجلاس منعقد ہوا  جس کی صدارت پروفیسر جی ۔آر۔ سید ، معصو م مرادآبادی، ڈاکٹر خالد رضا خاں اور نظامت ڈاکٹر نثار احمد نے کی ۔اس اجلاس میں ڈاکٹر احمد امتیاز نے خاکشائیہ ’پروفیسر صاحب‘،محترمہ چشمہ فاروقی نے افسانہ ’جاہل‘،محترمہ غزالہ قمر اعجاز نے افسانہ ’ڈیوڑھی‘، ڈاکٹر ناظمہ جبین نے افسانہ ’رشتوں کا اضطراب‘ ، ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے افسانہ ’اب ہوا گؤدان‘ ، ڈاکٹر ثمر جہاں نے افسانہ ’فرض‘ ،محترمہ غزالہ پروین نے ’افسانہ زرد پتوں کی بہار‘،ڈاکٹر ثاقب فریدی نے افسانہ ’میں قید میں ہوں ‘ ڈاکٹر محمد توصیف خاں نے انشائیہ ’جامعہ سے ہیں؟‘ ، محترمہ شفافاروقی نے ’ آبرو‘،محترمہ نازیہ دانش نے ’پنچایتی گلی‘ ،جناب جاوید عنبر مصباحی نے انشائیہ’سچا بندر اچھا بندر‘ ، محترمہ مبینہ افسانہ ’میری آنکھوں سے ‘ محترمہ اجالا نے افسانہ ’عورت کا فرض‘ پیش کیا ۔
تخلیقات کی پیشکش کے بعد صدور حضرات نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر خالد رضا خاں نے کہا کہ جو تخلیقی ادب آج پیش کیا گیا ان سبھی میں عہد حاضر کی حسیت مکمل طور پر پائی جاتی ہے ۔ سبھی کی تخلیقات بہت ہی اہم اور معیاری تھیں ۔ اردو اکادمی، دہلی ہی ہر سال اتنے تخلیق کاروں کو ایک پلیٹ فارم میں جمع کرتی ہے کوئی بھی دوسرا ادارہ ایسا کہیں بھی نظر نہیں آتا ہے۔ معصوم مرادآبادی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام (نئے پرانے چراغ) کو میں کشتی نوح کہتا ہوں کیونکہ اردو اکادمی، دہلی کے سبھی ادیبوں کواپنے آغوش میں لے لیتی ہے ۔ مزید کہا کہ تحریر وہی اچھی ہوتی ہے جو مختصر اور متاثر کن ہو نیز کفایت لفظی بہت ہی زیادہ ضروری ہے ۔ پروفیسر جی آر سید نے سبھی تخلیقات پر فرداً فرداً تفصیلی گفتگو کی اور کہا کہ شعر کی یہ تاثیر ہوتی ہے اس میں ایک شعر یا ایک ہی مصرع میں پوری کہانی بیان کردی جاتی ہے جب کہ افسانے میں کہانی بیان کرنے کے لیے جو زبان درکار ہوتی ہے وہ ترسیلی ہو، تاکہ لطف آئے ۔ کرداروں کی زبان کو سنوارنے میں بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کیا لکھنا ہے وہ سبھی کے ذہن میں ہوتا ہے لیکن کیا نہیں لکھنا ہے اس جانب خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ جتنی محنت آپ افسانہ لکھنے میں کرتے ہیں اتنی محنت آپ عنوان منتخب کرنے میں بھی کریں ۔
اجلاس کے اہم شرکاء میں لئیق رضوی ، ڈاکٹر شعیب رضا خاں وارثی ، احمد علوی ، حبیب سیفی، ایم آر قاسمی، ڈاکٹر ندیم احمد ، ڈاکٹر نظام الدین ، ڈاکٹر ارشاد احمد ، جناب انجم جعفری، ڈاکٹر عطیہ ودیگر معزز افراد و ریسرچ اسکالرز موجود تھے ۔
اس کے بعد محفل شعرو سخن کا انعقاد ہوا جس کی صدرات مشہور شاعر جناب متین امرہوی اور نظامت جناب مرزا عارف نے کی ۔