Your preferred website language

آپ کی پسندیدہ ویب سائٹ کی زبان

اردو اکادمی دہلی کے زیراہتمام ’’نئے پرانے چراغ‘‘ کے تحت تیسری ’’محفل شعر وسخن‘‘

نئی دہلی۔29 ستمبر
’نئے پرانے چراغ‘ کے زیر اہتمام تیسرے روز کا مشاعرہ شام کو بروقت شروع ہوا ۔ اس مشاعرہ میں دہلی کے بزرگ شعرا نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔مشاعر ہ کی شمع صدر مشاعرہ جناب متن امروہوی و بزرگ شاعر وں کے ہاتھوں روشن ہوئی۔ ناظم مشاعرہ جناب مرزا عارف نے نظامت کرتے ہوئے اکادمی کے ضابطے سے شعرا کو مطلع کیا کہ اگر کوئی شاعر تحت میں غزل پیش کریں تو صرف پانچ اشعار اور ترنم سے صرف تین اشعار پیش کریں۔روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ناظم مشاعرہ نے پہلے نوجوان شعرا کو دعوت سخن دی بعد میں بزرگ شعرا نے کلام پیش کیا۔ اس ادبی اجتماع میں 72شعرا نے اپنا کلام ۔
چند شعرا کے اشعار پیش خدمت ہیں :
ؓٓقائم رہے گا پھول سے خوشبو کا سلسلہ
نسبت رہے گی باغباں بلبل کو باغ سے
ہوتے رہیں گے حسبِ روایت یہ حشر تک
روشن نئے چراغ پرانے چراغ سے
متین امروہوی
اِک کمال ہوتا ہے زندگی کو جینا بھی
ورنہ زہر کھانے میں کتنی دیر لگتی ہے
جاوید قمر
تم کو تو اپنے دل میں جگہ دی تھی میں نے دوست
پھر انتخاب کر لیا کیوں آستین کا
منور امروہوی
دیکھنا رونقِ بازار ذرا دیر کے بعد
بکنے والے ہیں خریدار ذرا دیر کے بعد
خالد اخلاق
دیا آندھیوں میں جلانے چلے ہو
وفا کی روایت سمجھانے چلے ہو
جاوید مشیری
ترے وجود کو جھٹلائوں بھی تو میں کیسے
تیرے وجود کی سچائی میری جان میں ہے
قاری فضل الرحمن انجم
یہ تم نے مرے دل کا کیا حال بنایا ہے
آئو تو بہل جائے جائو تومچل جائے
مرزاعارفؔ
کبھی لوری سناتی  ہے کبھی جھولا جلاتی ہے
کسی بھی حال میں بچے کو ماں رو نے نہیں دیتی
سیف سحری
لو آج ہار کے ہم بھی زبان کھولتے ہیں
تمہارے شہر کے آئینے جھوٹ بولتے ہیں
عمران عظیم
فکرِ کی بنجر زمیں پر پھول اُگانے کے لیے
سینکڑوں الزام اپنے سر زمانے کے لیے
دانش ایوبیؔ
میں نے یہ سوچ کے لہجہ نہیں بدلا اپنا
زندہ رہنا تھا اپنے ہی کردار کے ساتھ
سلیم کاشف
دل کو سکون ملتا ہے تنہائیوں کے ساتھ
تو ہم نشیں ہزار ہو، یہ لازمی نہیں
ایس۔ یو۔ظفرؔ
جاتی بھی نہیں قلب سے جینے کی تمنا
اور شرط رکھے ہے کہ سب آرام بھلا دوں
اختر اعظمی
جب بھی کاغذ پہ گھر بنائے تھے
گھر کے آگے شجر بنائے تھے
رعنا رضوی
اپنے ہمسائے کو فاقوںسے بچانے والے
کیا ہوئے لوگ وہ مل بانٹ کے کھانے والے
شاہدؔ ہمدانی
رنگ لائی ہیں کوششیں میری
دل سے نکلا ہے بال برسوں میں
عاصمؔ کرتپوری
تم نے نظر ملنے سے پہلے ہی پھیر لی
گویا میرے فسانے کا عنوان نہیںدیا
جاوید عباس
جو وہ چاہے تو مل جائے کنارہ
بھنور میں بادباں ہے اور میں ہوں
ڈاکٹر فرمان چودھری
ہر شخص مسکرا کے گزر جائے گا یہاں
اپنے غموں کا شہر میں چرچہ نہ کیجئے
اختر حسین اختر
یہ عزم ہے وفا کے دیے ہم  جلائیں گے
کتنی بھی ہو ہو اؤں کی رفتار مختلف
حسین نواز نقوی
صحرائے لق و دم میں کوئی رہنما نہیں
جھونکے ہوا کے نفسِ کفِ پا مٹا گئے
اسرار قریشی
دل میں ہے ان کی حسرت مہتاب دیکھتے ہیں
گویا وہ آرہے ہیں ہم خواب دیکھتے ہیں
مشفق بچھرایونی
چھل فریبی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی
ڈس رہا ہے دوستی میں آدمی کو آدمی سبیلؔ
سبیل میوانوادوی
مشکل ہے وقت رہیے اِدھر آپ بھی خموش
ہے عافیت اسی میں، زمانہ تو دیکھیے
ابو صارمؔ
وہ بلندی پہ اکیلا ہی گیا یہ کہہ کر
ہم سفر ہو تو سفر ہو یہ ضروری تو نہیں
رضوان امروہوی
کہیں شیشہ ہے شیشہ کے مقابل
کہیں پتھر کو پتھر کاٹتا ہے
فخرالدین اشرف
لوگ تعظیم سے کھڑے ہوں گے
جب محمد کی بات آئے گی
ساہل
ہم نے جس حادثے پر صبر کیا
آپ ہوتے تو مر گئے ہوتے
آصف بلال
مری پہچان ہے یارو اسی سے
گلہ شکوہ نہیں مجھ کو کسی سے
اظہر شہاب
محبت کے رستے نہ ہموار ہوں گے
اگرچہ مبلغ ہی عیار ہوں گے
اسلم جاوید
غموں سے دل ہوا لبریز چھلکانے کہاں جائے
چھلک جائے اگر یہ غم تو دکھلانے کہاں جائے
زرین صدیقی
لہراتی ہو کیوں زلفیں اِن مست ہوائوں میں
کیا آج زمانے کو مدہوش بنا دوگے
زاہد احساس
کر گیا زخم تازہ بیوہ کا
ایک کم بخت چوڑیوں والا
ڈاکٹر راحت مظاہری
عشق کو کیسے چھپائوں گی عیاں ہو جائے گا
میری انگلی میں انگوٹھی کا نشاں ہو جائے گا
زینت دہلوی
یہ جو اپنا جہاں فانی ہے
کیا جہنم کی ترجمانی ہے
ابوذر فاطمی