Your preferred website language

آپ کی پسندیدہ ویب سائٹ کی زبان

دہلی کی تجارتی سرگرمیوں نے فنون لطیفہ کا دم گھونٹ دیا: عبدالعزیز

دہلی اردو اکادمی کے زیر اہتمام ’’بیسویں صدی کی دہلوی نثر‘‘کے موضوع پر سہ روزہ قومی سمینار کا انعقاد

نئی دہلی۔11اپریل۔

شمالی ہند میں اردو نثر کا آغاز شاعری کے مقابلے میں بہت تاخیر سے ہوا۔ دکن میں اردو نثر کا آغاز بہت پہلے ہوگیا تھا۔ دکن میں جب اردو نثر نے ترقی کے منازل طے کرلیے اس کے بعد شمالی ہند میں اردو نثر کا آغاز ہوا۔ شمالی ہند میں اردو نثر کے تاخیر سے ترقی کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں فارسی زبان وادب کا غلبہ تھا۔میر جعفر زٹلی، فضل علی فضلی، ملاحسین واعظ کاشفی جیسے ادیبوں نے شمالی ہند میں اردوکے اولین نمونے پیش کیے۔ میر عطاحسین تحسین ، محمد باقر آگاہ، عیسوی خاں بہادر اور فورٹ ولیم کالج کی نثر نگاری نے شمالی ہند میں اردو نثر کو مزید تقویت بخشی۔

تاریخ ادب اردو میں مختلف تحریکوں کے ساتھ چند ادبی دبستانوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ شاعری میں دبستان دہلی اور لکھنؤ کو نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔ دبستانوں کی یہ تقسیم تاریخی، جغرافیائی اور معاشرتی خصوصیات کے علاوہ زبان و بیان اور موضوعات کی بنیاد پر درست معلوم ہوتی ہے، اگرچہ جدید تنقید نے ان دبستانوں پر سوالیہ نشان بھی لگا دیے ہیں۔ دہلی کے دبستانِ شاعری پر چند معتبر کتابیں شائع ہو چکی ہیں، مگر افسوس کہ نثر کے دبستانوں پر تحقیقی و تنقیدی کام بہت کم ہوا ہے۔ سید ضمیر حسن دہلوی اور ڈاکٹر محمد عبدالرحیم جاگیردار جیسے محققین کی کاوشیں بھی اس حوالے سے تشنگی کا احساس دلاتی ہیں۔خصوصاً دہلی کے دبستانِ نثر پر کوئی خاطر خواہ تحقیقی کام منظرِ عام پر نہیں آیا۔ بیسویں صدی کی دہلوی نثر کے معماروں میں کئی اہم اور قابلِ ذکر نام شامل ہیں، جنھوں نے دہلی کی تہذیب و ثقافت اور تاریخی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی نگارشات پیش کی ہیں۔ ان نثر نگاروں نے دہلوی نثر کی عمدہ نمائندگی کی ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے شہر کی تاریخ کو مرتب کیا ہے اور اس کے تہذیبی و ثقافتی ورثے کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔

اردو اکادمی، دہلی نے اس حوالے سے ’’بیسویں صدی کی دہلوی نثر‘‘کے موضوع پر سہ روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا ہے۔ آج سمینار کا افتتاحی اجلاس اکادمی کے قمر رئیس آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ افتتاحی اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر شریف حسین قاسمی شریک ہوئے جنہوں نے اس سیشن کی صدارت کے فرائض بھی انجام دیے۔ استقبالیہ کلمات محمد احسن عابد، سکریٹری اردواکادمی نے پیش کیے۔ سمینار کے کنوینر پروفیسر مظہراحمد نے تعارفی کلمات پیش کیے جبکہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر شفیع ایوب نے بحسن وخوبی نبھائے۔ سکریٹری اکادمی نے شریف حسین قاسمی اور عبدالعزیز صاحب کو پودا پیش کرکے اُن کا استقبال کیا ۔ انہوں نے استقبالیہ کلمات میں بیسویں صدکی دہلوی نثر کے حوالے سے کچھ اہم نکات پیش کیے اور اکادمی کی پوری ٹیم کو اس پروگرام کے لیے نیک خواہشات پیش کیں۔

پروگرام سے قبل سابق ڈین اور صدر شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی پروفیسر نجمہ رحمانی کو تعزیت پیش کی گئی۔پروفیسرمظہراحمد نے نجمہ رحمانی سے اپنے دیرینہ تعلقات کا اظہار کیا۔ ان کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں نم آنکھوں سے خراج عقیدت پیش کیا۔ آڈیٹوریم میں موجود سامعین نے ان کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی اور ان کی مغفرت کی دعائیں کیں۔

سمینار کا کلیدی خطبہ جناب عبدالعزیز(سابق استاذذاکر حسین دلی کالج) نے پیش کیا۔ بیسویں صدکی دہلوی نثر پر اپنے باضابطے مقالے میں انہوں نے دہلوی زبان وادب پر مفصل گفتگو کی۔ بیسویں صدی کے دہلوی نثر نگاروں کا ذکر کرتے ہوئے ایک صدی کا قصہ مختصر سے وقفے میں پیش کیا۔ انہوں نے فورٹ ولیم کالج کے حوالے سے میر امن ’کے باغ وبہار‘ کا تذکر کرتے ہوئے ان کے سادہ ، رواں اور سلیس نثر کی خوبیوں کو بھی اُجاگر کیا۔ انہوں نے ’غدر کے بعد دہلی‘ اور ’تقسیم ہند کے بعد دہلی‘ کے مابین پیدا شدہ نثر اور اس کے فرق کی بھی وضاحت کی کہ ان دونوں ادوار میں کس طرح کی نثر لکھی گئی اور ان میں کس قسم کا فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ ’دہلی کی تجارتی سرگرمیوں نے فنون لطیفہ کا دم گھونٹ دیا‘۔انہوں نے اس بات کا بھی شکوہ کیا کہ اب فصیل بند شہر میں مشاعروں اور ادبی مجلسوں کا خاتمہ سا ہوگیا ہے۔ انہوں نے محاورے اور روزمرہ کے دہلوی طرز بیان کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت پر بھی زوردیا۔

مہمان خصوصی پروفیسر شریف حسین قاسمی نے اپنے صدارتی خطبے میں دہلوی نثر اور ممتاز نثر نگاروں کے حوالے سے گفتگو کی۔ انہوں نے کلیدی خطبے کے رموز ونکات پر مفصل بات کی اور کہا کہ ادب میں کسی بھی بات وضاحت اس وقت ہوتی ہے جب تقابلی مطالعہ پیش کیا جائے اور مثالوں کے ذریعہ اس کی وضاحت کی جائے۔ انہوں نے اپنے خطبے میں سرسید کا خصوصی ذکر کیا اور انہیں مفاخر دہلی قرار دیتے ہوئے ان کی زبان اور آثار الصنادید کا بھی تذکرہ کیا۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی کی اردو کی مذہبی کتابوں خصوصاً قرآن کے تراجم کو دہلوی نثر کے حوالے سے دیکھنا بہت اہم اور اشد ضروری ہے تاکہ بیسویں صدی کی رائج نثر کو بہتر طور پر سمجھا جاسکے۔

افتتاحی اجلاس میںپروفیسر شہپررسول، شبانہ نذیر، معین الدین جینابڑے، سہیل انجم، پروفیسر ابوشہیم ،ڈاکٹر شمیم احمد، پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی، پروفیسر خالد اشرف، ڈاکٹر معید رشیدی، ڈاکٹر جاویدحسن، حبیب سیفی، ڈاکٹر خان رضوان،ڈاکٹر عفیفہ بیگم وغیرہ شریک رہے۔ نظامت کے فرائض انجام دے رہے ڈاکٹر شفیع ایوب نے پروگرام کے آخر میں تشکر پیش کیا۔