نئی دہلی۔5۔ستمبر
اردو اکادمی، دہلی اپنی متحرک لسانی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کی بناپر ہندوستان کی دیگر اکادمیوں سے منفرد ہے ۔ تقریباً چالیس برسوں سے جاری یوم اساتذہ کے موقع پر ’یومِ اساتذہ کا مشاعرہ ‘ کا انعقاد کررہی ہے جس میں اسکو لوں ، کالجز اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اپنا معیاری کلام پیش کرتے ہیں۔ آج یہ عظیم الشان مشاعر اردو اکادمی، دہلی کے قمررئیس سلورجبلی آڈیٹوریم میں منعقد ہوا، جس میں استقبالیہ کلمات کی ذمہ داری ریشماں فاروقی نے بخوبی انجام دی۔ اسی درمیان اکادمی کے کارکنا ن نے صدرِ مشاعرہ اور تمام شعرا کا پودا دے کر استقبال کیا۔ مشاعرے کی شمع روشن صدر مشاعرہ پروفیسر فاروق بخشی و دیگر شعرا نے کی ۔
صدر مشاعرہ پروفیسر فاروق بخشی نے صدارتی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس مشاعرے میں بطو صدر شریک ہونا میرے لیے نہایت ہی خوشی کی بات ہے ساتھ ہی میں بہت ہی زیادہ جذباتی بھی ہوں کیونکہ آج میں جس مشاعر ہ کی صدارت کررہا ہوں آج سے چالیس سال قبل اس مشاعرہ میں پروفیسر شارب ردولوی ، پروفیسر مغیث الدین فرید ی ، شہاب جعفری و دیگر اساتذۂ فن شریک ہوتے تھے اور اس زمانے میں یہ مشاعرہ فکی آڈیٹوریم اور آندھرا بھون میں ہوا کرتا تھا ۔ انھوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ سابق صدر جمہوریہ ہندڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کے یوم پیدائش کے موقع پریوم اساتذہ کا جشن مناتے ہیں جب کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتما م اس مناسبت سے ’ یوم اساتذہ کا مشاعرہ ‘ کا انعقاد کرکے انہیں خراج عقیقدت پیش کیاجاتاہے ۔ صدر کی گفتگو کے بعد ناظم مشاعرہ جناب اعجازانصاری نے نظامت کی اور ایک کامیاب مشاعرہ اختتام کو پہنچا ۔
مشاعرے میں پڑھے گئے منتخب اشعار پیش ہیں:
محبتوں میں بھی رنجش تو اس کی فطرت ہے
میں کیا کروں کہ مجھے بھولنے کی عادت ہے
فاروق بخشی
محفوظ تم انتظار کرنا
جاگیں گے کبھی تو خواب سے ہم
احمد محفوظ
یہ تم نے کرلیا ہجرت کا فیصلہ کیسے
ہمارے گاؤں کی مٹی میں کیا نمی کم ہے
اعجاز انصاری
قطرہ ٔ شبنم کے بھی احسان یا د آنے لگے
ہونٹ سوکھے جارہے ہیں جب سے میں پانی میں ہوں
کوثرمظہری
ہوئی انسانیت بیدار ہر انسان پکار اٹھا
محمد تو ہمارا ہے ، محمد تو ہمارا ہے
شبانہ نذیر
دل کے زخموں پہ نمک رکھ کے وہ فرماتے ہیں
یہ محبت ہے محبت کا صلہ کچھ بھی نہیں
عفت زریں
مرے بچے مری صورت کو ترسے
تبھی تو گھربھرا ہے مال و زر سے
شعیب رضا خاں وارثی
وقت کے ساتھ بدلتے رہے شکلیں تو ہوئے
کبھی سورج کبھی چندا کبھی تارے لمحے
سلمیٰ شاہین
تو میری فکرمیں حرف ونوا میں شامل ہے
خیال جو بھی ہے ترے سوا وہ باطل ہے
واحد نظیر
ایسے عالم میں کہ جب وجد میں ہوں حضرت عشق
رقص میں کون ومکاں ہو تو غزل ہوتی ہے
خالد مبشر
عکس میرا تھا مگر شکل کسی اور کی تھی
کیسے ممکن ہے کسی چہرے پہ چہرہ ہونا
خان رضوان
اپنی ہی ذات سے لڑتا ہوں میں ہر دم لیکن
جیت بھی پاؤں گا ایسا نہیں لگتا مجھ کو
ارشاد احمد ارشاد
میں ایک زہر ہوں لت ہوں کہ اک افیم ہوں میں
کسی کسی کے لیے تو درخت نیم ہوں میں
اختر اعظمی
جاں پہ بن بن آئی لیکن
جینے کے انداز نہ آئے
شہلانواب
اداس ہیں جو حسین چہرے
میں ان کو ہنسنا سکھا رہا ہوں
انس فیضی
حیرت ہے یہاں جن کا کوئی گھر ہے نہ در ہے
وہ پوچھتے پھرتے ہیں ابھی کتنا سفر ہے
سلمان سعید
ہومسئلے پہ یا خنجر کے تلے سر اپنا
ہم نے کب خوف کے عالم میں عبادت کی ہے
محمداخترعلی
مشاعرہ میں کئی معتبر شخصیات نے شرکت کی نیز یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبا بھی موجود رہے جن میں حبیب سیفی، جاویدقمر، ارشدندیم،حامدعلی اختر، ڈاکٹر جاویدحسن، ڈاکٹر شاہنواز فیاض، ڈاکٹرمقیم وغیرہ کے نام گرامی شامل ہیں۔