نئی دہلی۔23اگست.
دہلی کے اردو اسکولوں کے طلبہ و طالبات کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ان کے اندر اردو فن و ثقافت کا ذوق و شوق پیدا کرنے اور اس مسابقتی دور میں خود اعتمادی اور حوصلہ بڑھانے کے لیے اردو اکادمی، دہلی ہر سال تعلیمی و ثقافتی مقابلے منعقد کرتی ہے، جن میں سیکڑوں طلبہ و طالبات شریک ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں میں اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کو انعامات دیے جاتے ہیں، جبکہ بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کنسولیشن انعامات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ شرکت کرنے والے اسکول کو ''Best Participating School'' (بہترین شرکت کرنے والا اسکول) اور سب سے زیادہ انعامات حاصل کرنے والے اسکول کو ''Best Performing School'' (بہترین کارکردگی کا حامل اسکول) کی ٹرافی اور نقد انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
ان مقابلوں میں تقریر، فی البدیہہ تقریر، بیت بازی، اردو ڈراما، غزل سرائی، کوئز، مضمون نویسی، خطوط نویسی، خوشخطی، امنگ پینٹنگ، گروپ سانگ (پرائمری زمرہ) اور بلند خوانی (پرائمری زمرہ) شامل ہیں۔ یہ تمام مقابلے دہلی کے پرائمری سے سینئر سیکنڈری سطح کے اردو اسکولوں کے طلبہ و طالبات کے درمیان منعقد کیے جاتے ہیں اور 8 ستمبر 2025 تک جاری رہیں گے۔
مقابلوں کے چوتھے دن غزل سرائی مقابلہ برائے مڈل (چھٹی جماعت تا آٹھویں جماعت) کے طلبا و طالبات کے منعقد کیا گیا جس میں
آج چوتھے دن مڈل زمرے کے لیے غزل سرائی کا مقابلہ منعقد ہوا، جس میں 26 اسکولوں سے مجموعی طور پر 45 طلبا و طالبات نے حصہ لیا، جن میں سے 9 طلبا و طالبات انعامات کے لیے منتخب ہوئے۔ اس مقابلے میں آل انڈیا ریڈیو کے براڈکاسٹر اور مشہور شاعر جناب عرفان اعظمی اور معروف شاعرہ ڈاکٹر سلمیٰ شاہین نے بطور جج شرکت کی۔
مقابلے کے اختتام پر طلبہ و اساتذہ کی فرمائش پر ڈاکٹر سلمیٰ شاہین نے اپنی ایک عمدہ غزل ترنم کے ساتھ پیش کی، جسے طلبہ و اساتذہ نے خوب تالیوں اور واہ واہ سے سراہا۔ اس کے بعد جناب عرفان اعظمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کی تیاری کراتے وقت انھیں صرف میر، غالب اور مومن تک محدود نہ رکھیں بلکہ دیگر شعرا کے معیاری کلام کی مشق بھی کرائیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اکثر طلبہ مشہور ترنم میں ہی غزلیں پیش کرتے ہیں، لیکن مقابلوں میں نیا اور منفرد ترنم اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ غزل سرائی میں تلفظ کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے، کیوںکہ غلط تلفظ غزل کے حسن کو خراب کر دیتا ہے۔ اساتذہ کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ ابھی ایک سال کا وقت ہے، آپ بچوں کی بہترین تیاری کرائیں تاکہ وہ انعامات حاصل کریں اور ان کا حوصلہ بلند رہے۔
جج صاحبان کے فیصلے کے مطابق پہلے انعام کے لیے احساس قیصر بنت قیصر جمال رضوی( راجا رام موہن رائے سروودیا کنیا ودیالیہ، حوض رانی) کو مستحق قرار دیا گیا۔ دوسرے انعام کے لیے عائشہ علی بنت عبدالعلی( رابعہ گرلز پبلک اسکول، گلی قاسم جان) اورمحمد ابوذر ولد محمد رضوان( اینگلو عربک سینئر سیکنڈری اسکول، اجمیری گیٹ) کومستحق قرار دیا گیا جب کہ تیسرے انعام کے لیے آمنہ احمد بنت شکیل احمد( کریسنٹ اسکول، موجپور) کو مستحق قرار دیا گیا۔ ان کے علاوہ حوصلہ افزائی انعام کے لیے عفیفہ پرویز بنت فہیم پرویز(سید عابد حسین سینئر سیکنڈری اسکول، جامعہ ملیہ اسلامیہ) وانیہ خان بنت شارق خان( زینت محل سروودیا کنیا ودیالیہ، جعفرآباد)، انیسہ عارف بنت محمد عارف گنائی( جامعہ مڈل اسکول، جامعہ ملیہ اسلامیہ)، عافیہ بنت محمد عمران( سروودیا کنیا ودیالیہ، جوگابائی) اوراُمّ فاطمہ بنت محمد اکمل( رابعہ گرلز پبلک اسکول، گلی قاسم جان) مستحق قرار دیے گئے۔