دہلی کے کہنہ مشق اورجواں عمر قلمکاروں کا پانچ روزہ ادبی اجتما ع ’’نئے پرانے چراغ‘‘ کا چوتھا دن

نئی دہلی ۔17؍فروری
’’نئے پرانے چراغ ‘‘کے چوتھے دن’’تنقیدی و تحقیقی اجلاس‘‘ کا آغازپروفیسر توقیر احمد خان،پروفیسر مظہر احمد اور خلیل الر حمان ایڈوکیٹ کی صدارت میںہوا جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر یوسف رضا نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں دہلی یونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ اورجواہر لعل نہرویونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرز نے اپنے تحقیقی موضوعات پر مقالات پیش کیے جن میںظہور احمد (جواہر لعل نہرویونیورسٹی)’’کناڈا کا مہجری اردو ادب:ایک مختصر جائزہ‘‘،عبد الرزاق (دہلی یونیورسٹی)’’قومی زندگی میں اردو صحافت کا کردار‘‘، مسکان(دہلی یونیورسٹی)’’شکیلہ اختر کی افسانہ نگاری :افسانہ ’ڈائن ‘کے حوالے سے ‘‘،سیف الرحمان (جامعہ ملیہ اسلامیہ)’’جائسی اور ان کی تخلیقات :ایک سرسری تعارف‘‘ محمدع سلیم (دہلی یونیورسٹی )’’یوسف القعید کے ناول ’’سرزمینِ مصر میں جنگ ‘‘کا تجزیاتی مطالعہ ‘‘، صالحہ عاصم (جامعہ ملیہ اسلامیہ)’’ندا فاضلی کے دوہوں میں ہندستانی تہذیب و ثقافت ‘‘درخشاں(جامعہ ملیہ اسلامیہ)’’شوکت حیات کا افسانہ گنبد کے کبوتر:ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘محمد صنور عالم(دہلی یونیورسٹی)’’ناول ارسلان اور بہزاد وجودیت اور طلسمیت کا مہبط‘‘،محمد اعجاز(دہلی یونیورسٹی)اکیسویں صدی کے اردو ناولوں میں سماج کی عکاسی 1980کے بعد اردو ناول کا سماج:مضمرات و امکانات‘‘ شامل ہیں ۔
صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے خلیل الر حمان ایڈوکیٹ نے تمام مقالہ نگاروں کی کوششوں اور محنتو ںکو سراہتے ہوئے سب کو مبارک باد پیش کی ۔انھوں نے تمام مقالوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ تحقیق انسانوں کے فکری تجسس سے پُرہوتی ہے ۔ہر محقق کا اپنا تنقیدی شعور اور ذاتی دلچسپی اور غیر جانب دار بھی ہونا ضروری ہے۔انھوں نے تحقیق کی اہمیت پر زور دیتے ہوکہا کہ طلبا کو مقالات شبلی اور مقالات حافظ محمود شیرانی کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔دوران تقریر انھوں نے سامعین و ریسرچ اسکالرس کو تحقیق اور مقالہ نگاری کے متعدد کامیاب اور بامقصد اصول بتائے۔انھوں نے کہا اپنے خطبے کے دوران نظیر اکبر آبادی کی شاعری اور علامہ شبلی نعمانی کی تحقیق نگاری پر بھی اظہار خیال کیا۔
اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر مظہر احمد نے تمام مقالہ نگاروں کو بہترین مقالے پیش کرنے پر مبارک باد پیش کی ۔ اپنی تقریر کے دوران انھوں نے مزید کہاکہ طلباکو مقالہ پیش کرتے وقت زبان و بیان اور انداز پیش کش کا خاص خیال رکھنا چاہیے ۔انھوں نے کہا آپ کی تحریر میں دم اسی وقت آئے گا جب آپ کو تقریر کا طریقہ آئے گا اور آپ کی تقریر اسی وقت مؤثر ہوگی جب اس میں الفاظ و جملوں کی ساخت و ادائیگی کا ہنر ہوگا۔
ظہرانے کے بعد تخلیقی اجلاس کا آغاز ہوا جس کی صدارت ڈاکٹرجی آرسید ،ڈاکٹر شمیم احمد اورجناب اسد رضا نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر عارف اشتیاق نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں کل 13 تخلیقات پیش کی گئیں جن میںڈاکٹرمحمودہ قریشی (تاریک مکان )عافیہ صدیقی (خواب کی تعبیر) اشتیاق احمد مصباح (فن کار)میسرہ اختر (بے رخی )شمیم اختر (نئی امید)ڈاکٹر محمد مستمر (انشائیہ پاکستان)ڈاکٹر سفینہ(خاکہ بادشاہی بیگم)طٰہٰ نسیم (چیل کے نانا)ڈاکٹر شعیب رضا خان وارثی(انشائیہ خوف کا سایہ)ترنم جہاں شبنم(برطرف)ڈاکٹر شمع افروز زیدی(خاکہ خالد محمود)ایم رحمان(نادان کتنا یہ دل ہے)ڈاکٹر نگار عظیم(بیان)
صدارتی تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر جی آرسید نے تمام کہانی کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بے حد خوشی ہے کہ اردو کا مستقبل بہت روشن ہے اور نئے چراغ پرانے چراغوں سے بھرپور زندگی اور تازگی حاصل کررہے ہیں جو کہ خوش آیند ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ نئے چراغوں کو پرانے چراغوں سے ہر وقت روشنی حاصل کرتے رہنا چاہیے اور انھیں اپنی تخلیقات سناتے رہنا چاہیے ،اس سے نہ صرف اس کے فکروفن سدھارآئے گا بلکہ ان میں خود اعتمادی اور پختہ کاری بھی آئے گی ۔ڈاکٹر شمیم احمد نے تمام تخلیق کاروں کو بہترین تخلیقات پیش کرنے پر مبارک باد پیش کی ۔تقریر کے دوران انھوں نے کہا کہ خوبصورت زبان و بیان اور انداز پیش کش کے اعتبارسے تمام کہانیاں یادگار اورپسندیدہ ہیں ۔انھوں نے مزید کہا کہ ان کہانیوں کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہی کہانیاں ہوتی ہیں جو فضا کو بوجھل ہونے کے بجائے خوشگوار بناتی ہیں ۔ جناب اسدرضا نے اردو اکادمی کے اس پانچ روزہ عظیم الشان اجتماع کی تعریف کرتے ہوئے تمام تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی۔اپنی تقریر کے دوران انھوں نے تخلیقات پر فرداً فرداً اظہار خیال کیا۔انھوں نے نئے تخلیق کاروں سے بطور خاص کہا کہ وہ اپنی تخلیقات کو پیش کرنے سے قبل اساتذہ کو ضرور دکھانا چاہیے ۔


