دہلی کے کہنہ مشق اورجواں عمر قلمکاروں کا پانچ روزہ ادبی اجتما ع ’’نئے پرانے چراغ‘‘ کا اختتام

اردو والوں کو اردو کے علاوہ دیگر زبانوں پر بھی محنت کرنی چاہیے:پروفیسر خالد علوی
Press-release-banner-1802

نئی دہلی ۔18؍فروری

’’نئے پرانے چراغ ‘‘کے آخری دن’’تنقیدی و تحقیقی اجلاس‘‘ کا آغازپروفیسر شریف حسین قاسمی، پروفیسر خالد علوی،پروفیسرخالد اشرف کی صدارت میںہوا جب کہ نظامت کے فرائض محضررضا نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں دہلی یونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ اورجواہر لعل نہرویونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرز نے اپنے تحقیقی موضوعات پر مقالات پیش کیے جن میںمحمدجاوید (دہلی یونیورسٹی)’’شعری صفات کا نثر نگار:مشتاق احمد یوسفی‘‘،جمیل سرور (جامعہ ملیہ اسلامیہ)’’ادب اور بین العلومیت‘‘،اُنزلا فاروقی(دہلی یونیورسٹی)’’دبستانِ عظیم آبادکی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ:جمیلہ خدابخش ‘‘،تجمل حسین (جواہر لعل نہرو یونیورسٹی)’’ابوالکلام قاسمی کی فراق شناسی‘‘ مبینہ (دہلی یونیورسٹی )’’عبداللہ حسین کے افسانوں میں قنوطی کردار ‘‘،شفق رضیہ(جامعہ ملیہ اسلامیہ) ’’افسانہ ’کاٹھ کا گھوڑا‘:ایک جائزہ ‘‘، محمد فرقان (دہلی یونیورسٹی)’’دارالمصنفین شبلی کا نظریہ نقد اور معاصر تنقیدی تعاملات‘‘،فیضان احمد کیفی(جامعہ ملیہ اسلامیہ)شان الحق حقی کے افسانے ’’افسانہ درافسانہ‘‘کا مطالعہ‘‘،محمد رضوان(دہلی یونیورسٹی)’’اردو فلمی نغمے اور تصورحیات‘‘،نعیم فاطمہ(جامعہ ملیہ اسلامیہ)’’مجتبیٰ حسین اور ان کی انشائیہ نگاری‘‘ شامل ہیں۔

صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر خالد علوی نے تمام مقالہ نگاروں کو بہترین مقالہ پیش کرنے پر مبارک باد پیش کی بعد ازاں انھوں نے کہا کہ ہم اردو والوں کو دوسری زبانوں میں لکھی تحریروں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے،اس سے ہمارے وژن اور سوچنے سمجھنے کے نظریے میں واضح فرق پیدا ہوگا۔انھوں نے ہندی زبان کے ادب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ادب میں امکانات بہت ہیں ۔ پروفیسر خالد اشرف نے کہا کہ طلبا اور اساتذہ کے تعلقات کو خوشگوار ہونا چاہیے ،انھوں نے کہا کہ یہ ایسا رابطہ ہے جو لافانی اور بیش قیمت ہے بلکہ انمول ہے۔بالخصوص ریسرچ اسکالرس کے لیے تو یہ بہت ہی ضروری ہے۔ پروفیسر شریف حسین قاسمی نے تمام قلم کاروں کو مبارک باد پیش کی اور فرداً فرداً تمام ہی مقالوں پر اظہارِ خیال کیا۔انھوں نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ اردو والے طلبا کو فارسی ادب سے بھی اپنا رشتہ ہموار کرنا چاہیے۔

ظہرانے کے بعد تخلیقی اجلاس کا آغاز ہوا جس کی صدارت ڈاکٹرپرویز شہریار،معروف صحافی معصوم مرادآبادی،ڈاکٹر ارشاد نیازی نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر شاہد اقبال نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں کل6تخلیقات پیش کی گئیں جن میںثروت عثمانی (اندھیرا)عمران عاکف خان (حویلی کے کبوتر)ڈاکٹر قدسیہ نصیر (مٹی کی خوشبو)ذبیح اللہ(نہ کوئی فن نہ کوئی عنوان) عمرانہ بیگم (تنہائی امی کی یاد میں)ترنم پروین(نورصبا) شامل ہیں۔

معصوم مرادآبادی نے تخلیق،فن کار،پیش کش اور تخلیق کار کی ذمے داریوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ تخلیق کار کے لیے لازم ہے وہ گہرا مطالعہ کریں اور تخلیق پیش کرنے سے قبل اپنے استاد یا کسی سرپرست کو دکھادیں ۔انھوں نے مزید کہا کہ لکھنے سے زیادہ پیش کش کے اسٹائل پر دھیان دینا چاہیے ،آپ کی پیش کش کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ وہ سامعین کو جکڑلے۔معصوم مرادآبادی نے تخلیق و نگارش کے بنیادی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کمال یہ ہے کہ کم لفظوں میں زیادہ بات کہہ دی جائے،کیوں کہ لفظ موتیوں کی مانند ہوتے ہیں،لہٰذا انھیں ضائع ہونے سے بچائیے ۔ڈاکٹر پرویز شہریار نے تمام تخلیق کاروں کوبہترین تخلیقات پیش کرنے پر مبارک باد پیش کی ۔تقریر کے دوران انھوں نے لکھنے اورادبی تخلیق کے بنیادی مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی ضرورت و اہمیت پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔انھوں نے مزید کہا کہ افسانوں،انشائیوں اور دیگر تخلیقات میں اسلوب اور تکنیک کا خاص خیال رکھنا چاہیے کیوں کہ تنوع اور نت نیا انداز و اسلوب ادب کی جان اور روح ہیں ۔ڈاکٹر ارشادنیازی نے اردو اکادمی کے ارکان کو اس پانچ روزہ خوبصورت اجتماع پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کے حالات میں آپ کا تخلیق کرنا اور فن پارہ پیش کرنا بہت بڑا عمل ہے جس کے لیے آپ سب مبارکبادکے مستحق ہیں ۔

شام چھ بجے اس پانچ روزہ اجتماع کا آخری مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت پروفیسر شہپر رسول نے اور نظامت جناب اعجاز انصاری کی۔

Press-release-1-1