اردو اکادمی ، دہلی کے زیر اہتمام تعلیمی و ثقافتی مقابلے جاری

غزل کی یہ کرشمہ سازی ہے کہ یہ ہر دور کے لہجے میں سماتی رہی ہے : ڈاکٹرواحد نظیر

نئی دہلی۔21۔اگست

اردو اکادمی، دہلی اسکولوں کے طلبہ و طالبات میں تعلیم کا ذوق و شوق پیدا کرنے اور ان میں مسابقت کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے ہر سال تعلیمی مقابلے منعقد کرتی ہے۔ ان مقابلوں میں اول، دوم اور سوم آنے والے طلبہ و طالبات کو انعامات دیے جاتے ہیں اور بچوں کی ہمت افزائی کے لیے کنسولیشن انعام بھی دیا جاتا ہے۔ نیز مقابلوں میں سب سے زیادہ شرکت کرنے والے اسکول کو "Best Participating School" (بہترین شرکت کرنے والا اسکول) اور سب سے زیادہ انعامات حاصل کرنے والے اسکول کو "Best Performing School" (بہترین کارکردگی کا حامل اسکول) کی ٹرافی اور نقد انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔

ان مقابلوں میں تقریری، فی البدیہہ تقریری، بیت بازی، اردو ڈراما، غزل سرائی، کوئز (سوال و جواب)، مضمون نویسی و خطوط نویسی، خوشخطی، امنگ پینٹنگ، گروپ سانگ (پرائمری زمرہ) اور بلند خوانی (پرائمری زمرہ) کے مقابلے شامل ہیں۔ یہ تعلیمی مقابلے دہلی کے پرائمری تا سینئر سیکنڈری اردو اسکولوں کے طلبہ و طالبات کے درمیان منعقد ہو رہے ہیں۔  یہ مقابلے 8ستمبر 2025 تک جاری رہیں گے۔

آج دوسرے دن غزل سرائی کا مقابلہ برائے سیکنڈری زمرہ (درجہ نہم اور دہم) منعقد کیا گیا جس میں 30 اسکولوں سے کل 49 طلبہ و طالبات نے شرکت کی اور 12 طلبہ و طالبات انعام کے لیے منتخب ہوئے۔ اس مقابلے میں بحیثیت جج معروف شاعر و ادیب ڈاکٹر واحد نظیر اور ایڈووکیٹ و شاعر جناب ناصر عزیز شریک رہے۔

مقابلے کے اختتام کے بعد ڈاکٹر واحد نظیر نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ خدائی کرشمہ ہے کہ جتنی زبانوں سے باتیں ادا ہوتی ہیں اتنے ہی اسلوب اور لہجے سامنے آتے ہیں۔ غزل کی یہ کرشمہ سازی ہے کہ یہ ہر دور کے لہجے میں سماتی رہی ہے۔ غزل اسی لیے معروف و مقبول ہے کہ اس میں اپنے عہد سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب ہم مقابلے میں شریک ہوتے ہیں تو کسی کو انیس نمبر ملتے ہیں اور کسی کو بیس، اس سے یہ ہوتا ہے کہ ایک انعام کا حقدار بنتا ہے اور دوسرا نہیں لیکن دونوں بالکل قریب قریب ہوتے ہیں، اس لیے کبھی بھی مایوس یا ہمت ہارنے کی کیفیت اپنے اندر نہیں آنے دینا چاہیے۔ نمبرات اور انعامات تو ادارے کی مجبوری ہیں۔ نیز انعام ملنا یا نہ ملنا اہمیت نہیں رکھتا، اہم یہ ہے کہ آپ نے اپنے سفر کی شروعات کر دی ہے جس سے یقیناً منزل ملے گی۔ ہمیں مقابلے میں شرکت کبھی بھی صرف انعامات کے لیے نہیں بلکہ شخصیت سازی کے لیے کرنی چاہیے۔ نیز کسی بھی مقابلے میں شرکت کا ثمرہ اس وقت وقتی محسوس ہوتا ہے، اصل قیمت کا احساس بعد میں ہوتا ہے کہ آپ نے کس اسٹیج سے کتنا حاصل کیا۔

دوسرے جج ایڈووکیٹ ناصر عزیز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقابلوں میں عموماً پانچ سات طلبہ ہی آگے آتے ہیں، اس لیے باقی شریک طلبہ و طالبات کبھی بھی دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ اپنی کمیوں کو دور کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ مقابلوں میں ہمیں ہمیشہ اصول و ضوابط کی پابندی کرنی چاہیے ورنہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

جج صاحبان کے فیصلے کے مطابق اول انعام کے لیے زرنگار بنت قیصر جمال رضوی (راجا رام موہن رائے سروودیہ کنیا ودیالیہ، حوض رانی) اور واجد ولد رئیس احمد (سروودیہ بال ودیالیہ نمبر 1، جامع مسجد، دہلی) کو مستحق قرار دیا گیا۔ دوسرے انعام کے لیے شفا سیفی بنت شکیل سیفی (سروودیہ کنیا ودیالیہ (وشوامترا)، سیماپوری، دہلی) اور شمائلہ خان بنت شجاعت خاں (گورنمنٹ گرلز سینئر سیکنڈری اسکول، چھترپور، دہلی) کو مستحق قرار دیا گیا۔ تیسرے انعام کے لیے توصیف ولد محمد نفیس (کریسنٹ اسکول، موجپور)، محمد عثمان ولد محمد یاسین (شفیق میموریل سینئر سیکنڈری اسکول، باڑہ ہندو راؤ) اور من تشا بنت محمد رئیس (سروودیہ کنیا ودیالیہ، جوگابائی، اوکھلا) کو منتخب کیا گیا۔

ان کے علاوہ حوصلہ افزائی انعام کے لیے افضیا خان بنت پرویز ظہور (حکیم اجمل خاں گرلز سینئر سیکنڈری اسکول، دریا گنج)، محمد حماد علی ولد رضوان علی (نیو ہورائزن پبلک اسکول، نظام الدین)، عرفات عالم ولد عبدالمتین (اینگلو عربک سینئر سیکنڈری اسکول، اجمیری گیٹ)، شازماں آفرین بنت محمد اقبال (نیو ہورائزن پبلک اسکول، نظام الدین) اور عائشہ خان بنت ندیم خان (رابعہ گرلز پبلک اسکول، گلی قاسم جان) کو مستحق قرار دیا گیا۔