نئی دہلی۔22اگست۔
اردو اکادمی دہلی ہر سال طلبہ و طالبات میں تعلیم کے لیے ذوق و شوق پیدا کرنے اور اس مسابقتی دور میں اعتماد و حوصلہ بڑھانے کے مقصد سے تعلیمی و ثقافتی مقابلے منعقد کرتی ہے۔ ان مقابلوں میں اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کو انعامات دیے جاتے ہیں، جبکہ دیگر باصلاحیت بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کنسولیشن انعامات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ شرکت کرنے والے اسکول کو "بہترین شرکت کنندہ اسکول" (Best Participating School) اور سب سے زیادہ انعامات جیتنے والے اسکول کو "بہترین کارکردگی کا حامل اسکول" (Best Performing School) کی ٹرافی اور نقد انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
ان مقابلوں میں تقریر، فی البدیہہ تقریر، بیت بازی، اردو ڈراما، غزل سرائی، کوئز، مضمون نویسی، خطوط نویسی، خوشخطی، امنگ پینٹنگ، گروپ سانگ (پرائمری زمرہ) اور بلند خوانی (پرائمری زمرہ) شامل ہیں۔ یہ تمام مقابلے دہلی کے پرائمری سے سینئر سیکنڈری سطح کے اردو اسکولوں کے طلبہ و طالبات کے درمیان منعقد کیے جاتے ہیں اور 8 ستمبر 2025 تک جاری رہیں گے۔
تیسرے دن سیکنڈری زمرہ (دسویں و گیارہویں جماعت) کے لیے تقریری مقابلہ بعنوان ’’سردار ولبھ بھائی پٹیل اور ہندوستان کا اتحاد‘‘ منعقد ہوا۔ اس مقابلے میں 22 اسکولوں سے 38 طلبہ و طالبات نے حصہ لیا، جن میں سے 13طلبہ و طالبات کو انعامات کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس موقع پر معروف صحافی جناب معصوم مرادآبادی اور جناب اشفاق احمد عارفی نے بطور جج شرکت کی۔
مقابلے کے اختتام پر جناب معصوم مرادآبادی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو اکادمی دہلی کی یہ نمایاں خصوصیت ہے کہ وہ اسکولوں کے بچوں کو اردو سے جوڑتی ہے، جو دیگر اکادمیوں میں کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ انھوں نے فنِ تقریر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تقریر ایک عظیم فن ہے، جس کے لیے اعتماد اور زبان پر عبور ضروری ہے۔ اردو زبان جتنی شیریں ہے، اتنی ہی نازک بھی ہے، لہٰذا بولتے یا لکھتے وقت اس کی نزاکت کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ جملوں کا انتخاب اور زبان کا استعمال اس طرح ہونا چاہیے کہ سننے والوں پر گہرا اثر ڈالے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ مقابلہ آرائی کا دور ہے اور کامیابی کے لیے ذہنی تیاری کے ساتھ حوصلہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جو اسٹیج پر کارکردگی کو نمایاں کرتا ہے۔
جناب اشفاق عارفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ تقریر کے لیے منتخب موضوع پر یکسانیت سے گریز کرنا چاہیے اور مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرکے تقریر کو منفرد بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انھوں نے زور دیا کہ تقریر و خطابت ہی وہ فن ہے جو انسان کو ہمیشہ ممتاز رکھتا ہے۔ یہ فن صرف اساتذہ سے سیکھنے پر منحصر نہیں بلکہ ذوق اور لگن ہی سے پروان چڑھتا ہے۔
جج صاحبان کے فیصلے کے مطابق پہلے انعام کے لیے محمد حذیفہ ولد محمد اشرف(اینگلو عربک سینئر سیکنڈری اسکول، اجمیری گیٹ) اور نبیرہ الصباح بنت نوید پراچہ (کریسنٹ اسکول، دریا گنج) مستحق قرار دیے گئے۔ دوسرے انعام کے لیے ( مدیحہ اقبال بنت جنید اقبال( رابعہ گرلز پبلک اسکول، گلی قاسم جان)اور آفرین بنت محمد مقیم( کریسنٹ اسکول، موجپور) جب کہ سوم انعام کے لیے انیق عبداللہ ولد عبداللہ جاوید (ہمدرد پبلک اسکول، تعلیم آباد، سنگم وہار)، خدیجہ شمعون بنت شعمون( کریسنٹ اسکول، موجپور)، خالد ہاشمی ولد افتخار علی (کریسنٹ اسکول، دریا گنج) اور آیت خان بنت برکت علی(نیو ہورائزن پبلک اسکول، نظام الدین) مستحق قرار دیے گئے۔ ان کے علاوہ حوصلہ افزا انعام کے لیے لائبہ بنت خلیل احمد( زینت محل سروودیا کنیا ودیالیہ، جعفرآباد)، فرخندہ ودود بنت ودود احمد( رابعہ گرلز پبلک اسکول، گلی قاسم جان)، زعیم کمال ولد مصطفیٰ کمال( اینگلو عربک سینئر سیکنڈری اسکول، اجمیری گیٹ)، ماریہ اقبال بنت اقبال رسول( نیو ہورائزن پبلک اسکول، نظام الدین) اور محمد عثمان ولد محمد یاسین( شفیق میموریل سینئر سیکنڈری اسکول، باڑا ہندو راؤ) مستحق قرار دیا گیا۔