Your preferred website language

آپ کی پسندیدہ ویب سائٹ کی زبان

تھیٹر کسب معاش سے زیادہ تسکین روح کا ذریعہہے :مجیب خاں

اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام ’’معاصر اردو اسٹیج ‘‘پر سہ روزہ قومی سمینار اختتام پذیر

نئی دہلی 27 اپریل

اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی سمینار بعنوان ’معاصر اردو اسٹیج ‘ انتہائی کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ۔ سمینار کے تیسرے دن تیسرا اجلاس صبح دس بجے جناب محمد اسلم پرویز، جناب اقبال نیازی کی صدار ت اور ڈاکٹر یوسف رضا کی نظامت میں شروع ہوا ۔ جس میں پہلا مقالہ ڈاکٹر ایم سعید عالم نے ’اردو کے سوانحی ناٹک : ایک جائزہ ‘ ، دوسرا مقالہ ڈاکٹر محمد انظر حسین نے ’ اردو اوپیرا : صورتحال اور امکانا ت، تیسرا مقالہ جناب ایس این لعل نے ’ اتر پردیش میں معاصر اردو تھیٹر : تنقیدی جائزہ ‘ چوتھا مقالہ محترمہ منیرہ سورتی نے ’نکڑ ناٹک : اثرات وامکانات ‘ پانچواں مقالہ جناب انیس اعظمی نے ’ اردو اکادمی ، دہلی کا ڈراما فیسٹول : ایک تنقیدی جائزہ ‘ اور چھٹا مقالہ جناب مجیب خان نے ’ کہانی کا رنگ منچ‘ پیش کیا۔ جناب انیس اعظمی نے بہت ہی تفصیل سے اردو اکادمی ،دہلی کا ڈراما سے جو رشتہ رہا ہے اور اس فن کے نامور ہستیوں نے جو کردار ادا کیا ہے اس کو پیش کیا ۔ جناب ایس این لعل صا حب ڈراما کی دنیا کے واحد فن کار ہیں جوپریم چند کی 315 کہانیوں میں سے 314 کہانیوں کو اسٹیج کرچکے ہیں ۔اس اجلاس کے صدارتی خطبہ میں اقبال نیازی صاحب نے کہا کہ ڈراما کا تعلق فنون لطیفہ سے ہے اور ’ جو تراشتا ہے اسے خوبی نظر آتی ہے اور جو تلاشتا ہے اسے خامی نظر آتی ہے ‘ ۔ مزید انھوں نے کہا کہ کہانیوں کو اسٹیج کرنے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پلاٹ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ کی جائے ۔

ظہرانے کے بعد چوتھا اجلاس منعقد ہوا جس میں مسند صدارت پر جناب محمد مجیب خاں اور جناب ایس این لعل فائز تھے ، نظامت کی ذمہ داری جناب مالک اشتر نے بخوبی انجا م دی ۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر امان اللہ نے ’ تمل ناڈو میں معاصر اردو تھیٹر : تنقیدی جائزہ ‘، ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے ’ جموں کشمیر میں اردو تھیٹر : تنقیدی جائزہ ‘ ، جناب ونے ورما نے ’ حیدرآباد میں معاصر اردو تھیٹر : تنقید ی جائزہ ‘ ، جناب فرخ شیر خان نے ’ مدھیہ پردیش میں معاصر اردو تھیٹر : تنقیدی جائزہ ‘ اور وقار قادری نے ’مہارشٹرا میںمعاصر اردو تھیٹر : تنقیدی جائزہ ‘ کے عناوین سے اپنے مقالات پیش کیے ۔ مقالا ت کے بعد ملک بھر سے تشریف لائے مقالہ نگار و صدور حضرات نے اس سمینا ر کے متعلق اپنے خیالات کا اظہا ر بھی کیا ، جس میں بطور میزبان پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے کہا کہ یہ ایک بہت ہی کامیاب سمینار ہوا کیونکہ اس میں فن سے متعلق فن کار نے اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا ۔ جناب اسلم پرویز نے کہا کہ ایسے سمینار پانی کی خاموش سطح پر پتھر مار کر لہریںپیدا کرنے جیسا ہے ۔ جناب اقبال نیازی نے کہا کہ ڈراما کھیلنا اہم ہے لیکن کس قسم کے ڈرامے اسٹیج کیے جارہے ہیں ان کا جائزہ لینے کے لیے اس نوعیت کے سمینار کا انعقاد بہت ضروری ہے ۔ یہ اکادمک اندازکا سمینار بالکل بھی نہیں تھا کہ جس میں گفتن نشستن اور برخاستن ہو بلکہ یہ عملی افراد کا سمینار تھا جس کے لیے سبھی کو مبارکباد ۔ جناب سلیم عارف نے کہا کہ سماج کے خیال سے تھیٹر مت کیجیے بلکہ سماج کو تھیٹر کی ضرورت ہے اس لیے کیجیے ۔نیز انہوں نے کہا کہ پہلی بار مجھے ایسا لگا کہ کسی عملی سمینار میں شرکت ہوئی ہے ۔جناب ظہیر انور نے کہا کہ ڈراما میں زندگی اور فن بہت ہی قریب آجاتا ہے ،اردو ڈراما پر ہر سطح پر کچھ اقدامات کی ضرورت ہے اور تدریسی سطح پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ۔ سمینار کے متعلق انہوں نے کہا کہ واقعی میں اتنا کامیاب اور پرفیکٹ سمینار بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔جناب ایس این لعل نے بطور صدر اظہار خیال کرتے ہوئے اولا سبھی مقالات پر اپنی رائے کا اظہار کیا اور فرمایا کہ پورے ہندوستان میں جہاں جہاں تھیٹر ہورہے ہیں وہاں وہاں ہر طرف مایوسی اور امید ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں ۔ نیز انھوں نے کہا کہ تھیٹر سے آپ اپنا گھر تو نہیں چلا سکتے ہیں لیکن اپنی روح کو ضرور خوش کرسکتے ہیں یعنی یہ کسب معاش  سے زیادہ تسکین روح کا ذریعہ ہے ۔ اس کے بعد سمینار کے اختتام کا اعلان کیا گیا ۔

اہم سامعین میںپروفیسر عبدالحق، پروفیسر معین الدین جینا بڑے ،پروفیسر خالد علوی، پروفیسر محمد کاظم ،پروفیسر خالد اشرف،  حبیب سیفی ،ڈاکٹر ندیم، ڈاکٹر جاوید حسن ، ڈاکٹر خان محمد رضوان، ڈاکٹر نظام الدین ، نیہاریاض ، امیرحمزہ وڈرامے کے دیگر طلبہ و اساتذہ بھی شامل تھے ۔