بیت بازی طویل عرصے سے قائم روایت کی نمائندگی کرتی ہے جس میں اردو شاعری کا استعمال ایک مقابلے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس کو کتنے اشعار یاد ہیں اور کسی دوسرے مدمقابل کے ذریعہ پڑھے جانے والے شعر کے جواب میں کوئی کتنی آسانی سے شعر پڑھ سکتا ہے۔ مقابلے میں دو یا دو سے زیادہ افراد یا ٹیمیں شامل ہوتی ہیں جو ایک ہی طریقے کی پیروی کرتی ہیں جس میں ان میں سے ایک کوئی شعر پڑھ کر مقابلہ کا آغاز کرتا ہے اور دوسری ٹیم / فرد فوری طور پر شعر کے ساتھ ہی اس کا جواب دیتا ہے جو پہلی ٹیم / فرد کے ذریعہ پڑھے جانے والے شعر کے آخری حرف سے شروع ہوتا ہے۔ مقابلے کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ ٹیمیں/ افراد کس طرح ایک دوسرے کے شعر کا درستگی، تلفظ اور ادائیگی سے فوری جواب دیتے ہیں۔ بیت بازی ہندوستان، پاکستان اور دیگر ممالک میں ہند و پاک کے اردو جاننے والوں (اردو ڈائسپورا) کے درمیان ایک ایسے مقابلے کے طور پر مقبول ہے جو اردو شاعری کے ذخیرے کو مالا مال کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اردو کے اشعار کو یاد کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ ہندی میں اسے انتاکشری کہا جاتا ہے جو ہندی شاعری / نغموں کے شائقین میں کافی مقبول ہے۔ اردو زبان کی شاعرانہ روایت کافی مالا مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقابلے کو شاعری کے شائقین میں خاص طور پر ہندوستان میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ اردو اسکولوں اور کالجوں میں باقاعدگی سے بیت بازی کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ مقابلے اردو سے محبت کرنے والے نوجوانوں کے لیے جوش کا باعث ہوتے ہیں کیونکہ مقابلے کے برابر ہو جانے کی صورت میں فاتح کا تعین کرنے کے لیے اشعار کے انتخاب کو ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔ مقابلے کے آغاز میں پہلا شخص کوئی شعر پڑھتا ہے۔ اس کے بعد مقابلے میں شریک افراد کو پہلے فرد کے ذریعہ پڑھے گئے شعر کے آخری حرف سے شروع ہونے والا کوئی شعر پڑھنا پڑتا ہے ۔ مقابلے میں ایک شعردوبارہ نہیں پڑھا جا سکتا ہے ۔ مقابلے میں شامل تجربہ کار افراد اور زیادہ سخت ضابطے وضع کر سکتے ہیں مثلا وہ کسی ایک شاعرکا ہی کلام یا کسی ایک موضوع پر ہی اشعار پڑھ سکتے ہیں۔
غزل عربی شاعری سے شروع ہونے والی عشقیہ نظم یا مرثیہ کی ایک صنف ہے۔ کسی کے کھونے یا کسی کی جدائی کے درد اوراس درد کے باوجود محبت کی خوبصورتی کا شاعرانہ اظہارغزل میں ہوتا ہے۔
:غزل کے لیے پانچ اصولوں پر عمل کرناضروری ہے
نظم کے برعکس غزل کے اشعار کو کسی عام موضوع یا تسلسل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہرشعر دوسرے شعر سے آزاد ہوتا ہے جس میں کسی خیال کا مکمل اظہار ہوتا ہے۔ تاہم تمام شعروں کا ایک دوسرے سے موضوع یا لہجے کا تعلق ہوتا ہے جو انتہائی دلکش ہو سکتا ہے۔ غزل کے ارتقا کے تعلق سے ایک عام خیال یہ ہے کہ غزل میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتا ہے۔
جگجیت سنگھ (جنہوں نے پہلی بار غزل میں گٹار کا استعمال کیا تھا)، احمد حسین اور محمد حسین، طلعت عزیز، پنکج ادھاس جیسے ہندوستانی غزل گلوکار اور بہت سارے دیگر غزل گلوکار مغربی موسیقی کے عناصر کو شامل کرکے غزل کو ایک نئی شکل دینے میں کامیاب رہے ہیں۔
دہلی کی گنگا جمنی تہذیب کو اجاگر کرنے کے لیے اُردو اکادمی دہلی ۸۸۹۱ء سے ڈراما فیسٹول کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ اس ڈراما فیسٹول میں خاص طور پریہ خیال رکھا جاتا ہے کہ ایسے ڈرامے پیش کرائے جائیں جو ناظرین کے ذوق کی تسکین کرنے کے ساتھ ساتھ اردو تہذیب و ثقافت کی نمائندگی بھی کرتے ہوں تاکہ نئی نسل اردو تہذیب و ثقافت سے واقف ہوسکے۔ اس فیسٹول کی مقبولیت کے پیشِ نظر بہت سے ڈراما گروپ اکادمی سے مستقل رابطہ قائم کرتے رہتے ہیں۔ اس ڈراما فیسٹول میں عام طور پر ایسے ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں،جن میں سماج میں پھیلی برائیوں، طلباء کے مسائل، دہشت گردی اور دہلی کی قدیم تہذیب کو پیش کیا جاتا ہے۔ اکادمی اسکولی طلباء کے لیے تھیٹر ورکشاپ کا اہتمام بھی کرتی ہے۔
چار بیت چار سو برس پہلے قدیم ادائیگی پرمبنی فن ہے جسے فنکاروں کا ایک پورا گروہ پیش کرتا ہے۔ چار بیت یا چارمصرعے عوامی حکایات و روایات اور ادائیگی کی ایک صنف ہے۔ یہ فن آج بھی اتر پردیش کے رامپور، راجستھان کے ٹونک، مدھیہ پردیش کے بھوپال اور تلنگانہ کے حیدرآباد میں زندہ ہے۔ سنگیت ناٹک اکادمی نے اسے روایتی لوک فن قرار دیا ہے۔ شاعری کی اس صنف کا آغاز ساتویں صدی میں عرب میں ہوا جہاں اس کا نام رجز تھا۔ لفظ "چار بیت" فارسی زبان سے ماخوذ ہے جہاں اس سے مراد چار مصرعوں کی شاعری ہے جس میں ہر بند چار بیت پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے عربی ساز،دف کے ساتھ گایا جاتا ہے۔ فن کی یہ صنف فارس سے افغانستان کے راستے ہندوستان داخل ہوئی تھی۔ بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ مغل فوج میں خدمات انجام دے رہے افغانی فوجی اس فن کو ہندوستان لے کر آئے تھے۔ .چار بیت اردو الفاظ کا وہ بیش بہا خزانہ ہے جس میں مختلف مطالب، آہنگ، مقولوں اور محاوروں کے ذریعہ شعری پیرائے میں داخلی تجربوں کا خوبصورت اظہار ہوتا ہے۔ یہ قوالی کی ایک ضمنی صنف ہے جہاں نغمے مختصر اور اردو زبان میں ہوتے ہیں۔ اس میں چاروں گلوکار ایک کمرے یا زمین پر چار کونوں پر ایک تخت پر بیٹھ جایا کرتے تھے اور پھر ایک ایک کرکے چاروں گاتے تھے۔ کبھی کبھی یہ نغموں کے مقابلے کی شکل اختیار کرلیا کرتا تھا۔
موسیقی کی ایک صنف کے طور پر قوالی کا ایشیائی برصغیر میں ہندوستانی کلاسیکی روایت سے گہرا تعلق ہے۔ یہ کلاسیکی موسیقی کی طرح راگ اور تال کے ایک ہی مصدر سے نکلی ہے اور گیت کی صنف خیال کی طرح ہی اس کا ایک رسمی ڈھانچہ بھی ہے۔ خیال کی طرح، قوالی یکساں طور پر سر اور تال کے لحاظ سے لچکدار سولو صوتی امپرووائزیشن کا مرکب ہے جس میں میلسما (ایک ہی سر میں ایک سے زیادہ پِچ پر گانا) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ قوال اور سامعین کے درمیان یہ تعامل کسی بھی کامیاب قوالی پرفارمنس میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ قوالی محفل سماع کے تناظر میں ہوتی ہے ۔ محفل سماع کا انعقاد کسی صوفی یا بزرگ کی برسی کے موقع پر اس کے مزار پر کیا جاتا ہے۔ دیگر خاص مواقع پر روحانیت کو پروان چڑھانے کے لیے بھی قوالی کا اہتمام کیا جا تا ہے۔ بالعموم ہندوستانی موسیقار اور فارسی زبان کے شاعر امیر خسرو (1253-1325) کو قوالی کاتخلیق کار مانا جاتا ہے۔ ان کے کام روایتی قوالی کی بنیاد ہیں۔ درحقیقت، قوالی کی بیشتر محفلوں کا آغاز اور اختتام دونوں انھیں کو منسوب گانوں کے ساتھ ہوتا ہے، جسے رنگ کہا جاتا ہے، جس میں ان کے اپنے استاد اور تصوف میں چشتیہ سلسلے کے صوفی بزرگ نظام الدین اولیاء کے ساتھ روحانی تعلق کا تذکرہ ہوتا ہے۔امیر خسرو کا نام قوالی برادری میں روحانی، شاعرانہ اور موسیقی کے نقطہ نظر سے احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اور آج سب سے زیادہ "مستند" سمجھے جانے والے گلوکار بھی عام طور پر اپنی کارکردگی کی کڑی انھیں کی نسبت میں تلاش کرتے ہیں۔ قوالی ایک اسلامی صوفی نوعیت کی موسیقی ہے، جو ہندوستان میں مشہور ہے۔ بنیادی طور پر ہندوستان میں قوالی صوفی مزاروں پر پیش کی جاتی ہے۔ قوالی دنیا بھر میں مقبول ہو چکی ہے۔ قوالی گلوکار کی بہترین آواز اور گانے کی صلاحیت کی وجہ سے مشہور ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ قوالی 700 سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ بنیادی طور پریہ موسیقی پاکستان کے پنجاب صوبے میں کافی مقبول ہے۔ موسیقی کے اس فن کو 20ویں صدی کے آخر میں جنوبی ایشیا سے باہر مقبولیت حاصل ہوئی، جس کی بڑی وجہ عالمی موسیقی کی صنعت کی طرف سے اس کی ترویج ہے۔ ایک عام قوالی میں ایک یا دو اہم گلوکار ہوتے ہیں۔ تالیاں بجانے والے قوالوں کا ایک گروپ ہوتا ہے جو تال ملا کر گاتے ہیں۔ ایک ہارمونیم بجانے والا ہوتا ہے، جو سر اور تال کے ساتھ راگ کو بہتر بناتاہے۔ ایک ڈھولک یا طبلہ بجانے والا بھی ہوتا ہے جو تال کو بہتر کرتا ہے۔
داستان گوئی کی ابتدا فارسی زبان میں ہوئی ہے۔ داستان کا مطلب کہانی جبکہ داستان گوئی کے لاحقہ، گوئی کا مطلب "کہانی کہنا" ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی کہانیاں مختلف صنفوں کے ذریعے سنائی جاتی رہی ہیں- ان میں دلچسپ ترین اوراہم ترین طریقوں میں سے ایک داستان گوئی ہے جو زبانی کہانی سنانے کی 16ویں صدی سے تعلق رکھنے والی ایک صنف ہے ۔ داستان گوئی محض کہانی سنانا نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل فن ہے جس میں داستان گو (کہانی سنانے والا) اپنے دلچسپ بیان کے ذریعے سامعین کے ذہن میں ایک منظر پیدا کردیتا ہے۔ داستان گوئی اردو زبان میں کہانی سنانے کا 13 ویں صدی میں فروغ پانے والا ایک فن ہے۔ داستان گوئی کا مرکزی کردار داستان گو یا کہانی سنانے والا ہوتا ہے جن کی آواز زبانی طور پر داستان یا کہانی کی دوبارہ تخلیق میں ایک اہم آلے کا کام انجام دیتی ہے۔ داستان گوئی نے 18 ویں صدی میں دہلی سے لکھنؤ کا رخ کیا تھا جس میں 1857 کی جنگ آزادی نے بھی بہم مدد پہنچائی تھی کیوں کہ اس دوران بہت سارے فنکاروں، ادیبوں اور داستان سنانے والوں نے بھی دہلی سے لکھنؤ کوچ کیا تھا۔ لکھنؤ میں داستان گوئی تمام طبقوں میں مقبول تھی۔ اسے چوکوں (شہر کے چوراہوں)، نجی گھرانوں اور افیم خانوں (عوامی افیون گھر) سمیت مختلف مقامات پر باقاعدگی سے پیش کیا جاتا تھا۔ داستان گوئی کا فن "جنگ"، "خوشی،" "خوبصورتی"، "محبت" اور "فریب" جیسےعنوانات میں منقسم کیا گیا تھا۔ ابتدائی دنوں میں داستان سنانے والوں نے جادو، جنگ اور مہم جوئی کی کہانیاں بیان کیں اور الف لیلہ جیسی کہانیوں، رومی جیسے کہانی سنانے والوں اور پنچ تنتر جیسی کہانی سنانے کی روایات سے آزادانہ طور پر کہانیاں مستعارلیں۔ 14 ویں صدی سے فارسی داستان سنانے والوں نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا امیر حمزہ کی زندگی اور مہم جوئی پر توجہ مرکوز کرنا شروع کردی تھی۔ داستان گوئی کے ہندوستانی سلسلے نے ان کہانیوں میں عیاری (فریب) جیسے کہانی سنانے کے عناصر کا اضافہ کیا۔ داستان کے چار اجزائےترکیبی ہیں: جنگ و معرکہ (رزم)، مجلس و تفریح (بزم)، جادو (طلسم) اور چالاکی و عیاری۔ کوئی بھی داستان ان ہی عناصر کے چاروں طرف گردش کرتی ہے۔ لکھنوی داستانوں میں جادو کے عنصر کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ لکھنوی (اردو) داستان گوئی کی بعض خصوصیات جن کا ذکر ادبی نقادوں نے کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
خیال کیا جاتا ہے کہ اس فن کی ابتدا عرب میں اس وقت ہوئی جب بت پرستی کے زمانے میں کہانیاں سنانے کے لیے مجلسیں منعقد کی جاتی تھیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ انیسویں صدی میں جب اردو داستانیں لکھی گئیں توان کا وہ متن ہی تھا جو زیادہ اہمیت کا حامل تھا جبکہ تخلیق کار کا نام قدرے ہی کشش رکھتا تھا۔