دہلی اردو اکادمی کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی سمینار ’بچوں کا ادب‘اختتام پذیر

نئی دہلی ۔23؍فروری
ادب اطفال اردو ادب کا زندہ و جاوید ادب ہے ،اس کا سلسلہ ہر لٹریچر میں موجود ہے ،اردو میں اس کا آغاز انگریزوں کی ہندستان آمد اور نرسری نظام تعلیم کے تحت ہوا جسے انجمن پنجاب کے زیر اہتمام پروان چڑھایا گیا ،ابتدائی دور میں ادب اطفال نگاروں میں مولانا حالی،مولانا حسین آزاد،اسماعیل میرٹھی،حامد اللہ افسر میرٹھی اور شفیع الدین نیر وغیرہ کا نام خصوصی طورپر لیا جاسکتا ہے۔انھوں نے بچوں کی عمر اور ان کی سمجھ و فہم کے مطابق ادب تخلیق کیا ۔ مذکورہ خیالات کااظہار اردو اکادمی،دہلی کے زیر اہتمام قومی سمینار ’بچوں کا ادب‘ کے تخلیقی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد العزیز نے کیا۔انھوں نے مزید کہا کہ ادب لکھتے وقت ان کے مزاج و معیار اور ان کی عمروں کا لحاظ ہر حال میں کرنا چاہیے تاکہ ہم ان کی عقل و فہم کے مطابق ادب پیش کرسکیں ۔ انھوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ اس جانب ناقدین اور اردو ماہرین کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر محمد شاہد حسین نے کہاکہ بچوں کا ادب لکھنا اس لیے بھی اہم ہے کہ ان کے کاندھوں پر مستقبل کی ذمے داریاں آنے والی ہوتی ہیں ،لہٰذا ادب اطفال نگاری کے وقت تنوع اور رنگا رنگی کا خاص خیال رکھنا چاہیے ۔انھوں نے مزید کہا کہ ادب ِاطفال تخلیق کرتے وقت بچو ںکی دلچسپی اور ضرورت کا خاص خیال رکھنا چاہیے ،ایسا ہی ادب زندہ رہتا ہے اور بچوں کے حق میں مفید بھی رہتاہے۔اس اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ثاقب عمران نے انجام دیے ۔
اس اجلاس میں کل سات تخلیقات پیش کی گئیں جن میں پروفیسر اسلم جمشید پوری( کہانی قرآنی واقعہ)، نعیمہ جعفری پاشا(ماڈرن لال بجھکڑ)،رئیس صدیقی (بے قصور بہرہ) شعیب رضا خان وارثی (تیرا میرا سب کا بچپن)،ڈاکٹر عادل حیات (ماں کا خواب)،حبیب سیفی(تعلیم کا اجالا۔جذباتی روبوٹ) تبسم یاسمین(گوریا ۔نظم) شامل ہیں ۔ان تمام تخلیقات کو سامعین نے بے حد پسند کیا ۔اجلاس کے دوران جامع مسجد اسکول کی طالبات نے تخلیق کاروں سے اپنی دلچسپی کے سوالات بھی پوچھے ۔
سمینار کا آخری اجلاس معروف مصنف، محقق و ناقد شمیم طارق کی صدارت میں شروع ہوا جس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر شفیع ایوب نے انجام دیے۔اس اجلاس میں کل چھ مقالے پڑھے گئے جن میںڈاکٹرمحبوب حسن (اردو ادب اطفال اور ماحولیات)،رخشندہ روحی مہدی(بچوں کی ذکیہ مشہدی)،انیس اعظمی(بچوں کے ڈراموں کا اجمالی جائزہ)،فاروق سید(اردو میں بچوں کے گیت)، ڈاکٹرذکی طارق(بچوں کے متین طارق باغپتی)،اقبال مسعود(بچوں کے اسماعیل میرٹھی)شامل ہیں ۔
صدارتی تقریر میں شمیم طارق نے تمام مقالوں پر فرداً فرداً گفتگو کی اور ان میں موجوداہم نکات کی جانب اشارہ کیا ۔انھوں نے مزید کہاکہ بچوں کی نفسیات اور ذہنیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ادب تخلیق کرنا چاہیے ،آج مصنوعی ذہانت کا زمانہ ہے،ایسے حالات میں فطری ذہانت کو ترقی دینا اور فروغ دینا بھی ہمارے ادیبوں کی اہم ذمے داری ہے۔شمیم طارق نے ایک مقالے میں پیش کردہ تجویز کی تائید کرتے ہوئے کہا آج اکادمیوں اور اردو کے اداروں کو چاہیے کہ وہ اسماعیل میرٹھی کے ذریعے ترتیب دیے گئے اردو نصاب کو از سر نو شائع کریں اور ان تک بچوں کی رسائی آسان بنائیں ۔
آخر میں سمینار کی کنوینر ڈاکٹر شبانہ نذیر نے تمام مقالہ نگاروں اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔