تحقیق کے سلسلے میں اسکالرز کی اصلاح بہت ضروری ہے:پروفیسر شہزاد انجم

دہلی کے کہنہ مشق اورجواں عمر قلمکاروں کا پانچ روزہ ادبی اجتما ع ’’نئے پرانے چراغ‘‘ کا دوسرا دن

’’نئے پرانے چراغ ‘‘کے دوسرے دن’’تنقیدی و تحقیقی اجلاس‘‘ کا آغازپروفیسر شہزاد انجم اور پروفیسر ندیم احمد کی صدارت میںہوا  جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شاہنواز فیاض نے ادا کیے۔ اس اجلاس میں دہلی کی تینوں یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز نے اپنے تحقیقی موضوعات پر مقالات پیش کیے جن میںمحمد فرید (جامعہ ملیہ اسلامیہ)’’احسن فاروقی کا ناول : ’’دل کے آئینے میں‘‘ایک تنقیدی مطالعہ‘‘،محمد عابد (جواہر لعل نہرویونیورسٹی)’’مصر کے اردو اساتذہ کی علمی و ادبی خدمات‘‘،زیبا خان(دہلی یونیورسٹی)’’شکیل الر حمان کی منٹو تنقید کا جمالیاتی طلسم‘‘،عامر مظفر بٹ (جامعہ ملیہ اسلامیہ)’’شورش کاشمیری کی صحافتی تحریروں کا امتیاز‘‘،نوید رضا (جے این یو)’’دکنی مثنویوں میں قرآن و احادیث کی تلمیحات‘‘ ، محمد محدث(جامعہ ملیہ اسلامیہ ) ’’اکیسویں صدی میں اردو غزل : ایک مطالعہ‘‘، شہبازریحان(دہلی یونیورسٹی)’’ہندی اردو سنیما کا آغازاور دادا صاحب پھالکے:ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘، خوشبو پروین (دہلی یونیورسٹی )’’اردو رباعی :فن اور امکانات ‘‘،محمد شاہنواز خان (جامعہ ملیہ اسلامیہ)’’الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد کے نظریۂ نظم میں اشتراک ومماثلت :چند پہلو‘‘،عبد الرحمان ’’اردو غزل کا استعاراتی نظام اور تصوف ‘‘ کے نام شامل ہیں۔ پروفیسر شہزاد انجم نے تمام مقالہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق کے سلسلے میں ریسرچ اسکالرز کی اصلاح بہت ضروری ہے اور خوشی کی بات ہے کہ اردو اکادمی، دہلی ان کے لیے اس طرح کے مواقع فراہم کررہی ہے ۔
ظہرانے کے بعد تخلیقی  اجلاس کا آغاز ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر ریاض عمر ،پروفیسر ابو بکر عباد اورڈاکٹر شاہینہ تبسم نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر نثار احمد نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں کل 11 تخلیقات پیش کی گئیں جن میںڈاکٹر عذرا نقوی (کمال الدین ایوبی)،محمد نظام الدین (قلم کار اور فیٹو )، ڈاکٹر ذاکر فیضی (احساس کی زمین)،ڈاکٹر غزالہ فاطمہ (محبت کے رنگ ہزار)، ڈاکٹر ابراہیم افسر(کتابیں کچھ کہتی ہیں۔انشائیہ)،انس فیضی (خاکہ محمد رامش فریدی )نشاط حسن(سکھیا)،صائمہ پروین (اُداس آنکھیں) ،محمدعرفان(وہ لوگ)،طلعت نسرین بھارتی (کڑوا سچ)،تاج الدین (مجرم کون) کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
اس موقع پر صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر ابوبکر عباد نے کہا کہ افسانے میں حسن تبھی تک حسن رہتا ہے جب تک اس میں پوشیدگی رہے،لہٰذا ہمارے طلبااور افسانہ نگاروں کو چاہیے کہ وہ افسانہ تحریر کرتے وقت اس کا خاص خیال رکھیں ،انھوں نے مزید کہا کہ افسانہ بیانیہ نہ ہوکر مختصر اور بامقصد ہونا چاہیے تاکہ وہ سامعین کو باندھے رکھے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ریاض عمر اور پروفیسر شاہینہ تبسم نے بھی تمام شرکاو تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اردو کے تخلیقی ادب سے متعلق گراں قدر خیالات کا اظہار کیا۔
تخلیقی اجلاس کے بعد ’’محفلِ شعروسخن‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر خالد محمود نے کی اور نظامت کے فرائض مرزا عارف نے انجام دیے، جس میں تقریباً ساٹھ شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔